رواں برس (سال دوہزار بائیس) کی ’کامن ویلتھ گیمز (دولت مشترکہ ممالک کے درمیان کھیلوں کے مقابلے) برمنگھم برطانیہ میں اٹھائیس جولائی سے آٹھ اگست منعقد ہوں گے یعنی اِن مقابلوں کے لئے ایک ہفتے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے اور کھیلوں کی تیاری یعنی تمغہ جیتنے پر توجہ کی بجائے حال ہی میں پاکستان سپورٹس بورڈ نے برمنگھم جانے والے دستے میں کھلاڑیوں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی کی اور دستے میں کھلاڑیوں سے زیادہ دیگر حکام کو شامل کیا۔ یہی دستہ اگلے ماہ ترکی کے شہر قونیہ میں ہونے والے اسلامی یک جہتی گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرے گا۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ (سلوک) پہلی مرتبہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ توجہ طلب ہے کہ مقابلہ کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد میں کمی کے فیصلے پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا ہے پاکستان میں کھیلوں کا معیار بہتر اور عالمی سطح پر نمایاں بنا نے کیلئے متعلقہ اداروں کے درمیان حالات کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔بد قسمتی سے۔ جب بات بڑے بین الاقوامی مقابلوں کے لئے سکواڈز (کھلاڑیوں) کے انتخاب کی ہو تو متعلقہ تنظیموں کے درمیان اختلافات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
قابل ذکر موجودہ پیشرفت یہ سامنے آئی ہے اور بالآخر اتفاق اِس بات پر ہوا ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور متعلقہ فیڈریشنز ان کھلاڑیوں کو مالی تعاون دے گی جنہیں سپورٹس بورڈ نے قومی دستے سے باہر رکھا ہے، یہ شاید ہی حیرت کی بات ہے کہ بین الاقوامی کھیلوں کے میدانوں میں پاکستان کی کارکردگی مسلسل زوال پذیر ہے‘ مثال کے طور پر کامن ویلتھ گیمز کو لے لیں۔ گولڈ کوسٹ‘ آسٹریلیا میں منعقدہ چوتھائی ایونٹ کے آخری ایڈیشن میں پاکستان نے صرف ایک گولڈ اور چار کانسی کے تمغے جیتے تھے۔ بہتر تربیت کے ساتھ‘ پاکستان کے کھلاڑی برمنگھم میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن پاکستان کے لئے تمغے جیتنے کے امکانات تیار کرنے کے لئے بہت کم کوشش کی گئی۔ امید ہے کہ گولڈ کوسٹ میں گولڈ میڈل جیتنے والے ریسلر انعام بٹ جیسے کھلاڑی برمنگھم میں چمکیں گے۔ بٹ کے علاوہ پاکستان کے اسٹار جیولن تھرو ارشد ندیم برمنگھم میں ٹائٹل جیتنے کے لئے فیورٹ ہیں۔ گولڈ کوسٹ میں چوٹ کی وجہ سے تمغہ حاصل کرنے سے محروم رہنے والے ارشد نے گزشتہ سال ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک گیمز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جب وہ ایک تمغہ جیتنے سے معمولی فرق کے ساتھ محروم رہ گئے۔ اِس مرتبہ ڈوپنگ پابندیوں کا سامنا کرنے والے ویٹ لفٹر طلحہ طالب کی خدمات سے پاکستان محروم رہے گا لیکن دیگر ویٹ لفٹرز کے لئے برطانیہ میں تمغہ جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
جوڈو میں شاہ حسین شاہ کی نظریں گولڈ میڈل پر ہیں۔ نوجوان قیصر آفریدی بھی جوڈو میڈل کے ساتھ سرپرائز دے سکتے ہیں تاہم پاکستان کے ہاکی میں تمغہ جیتنے کی امید بہت ہی کم دکھائی دے رہی ہے حالانکہ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور اس کی تربیت و کارکردگی پر زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔ ایک بار دنیا کی بہترین ٹیم کے طور پر شمار ہونے والے‘ پاکستان کو کھیل کے میدان میں بھی مندی کا سامنا ہے اور برمنگھم میں پوڈیم پر جگمگانے کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ باکسنگ کا بھی ہے جس نے کبھی پاکستان کو بین الاقوامی مقابلوں میں تمغے دلائے تھے۔ پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم بھی اِن گیمز میں شرکت کر رہی ہے اگرچہ یہ تمغے کیلئے پُراُمید نہیں لیکن پاکستان کا نام کسی کھیل کی فہرست میں ہونا بھی اپنی جگہ کامیابی سے کم نہیں اور آج نہیں تو مستقبل میں خواتین کی کرکٹ ٹیم سے ’اچھی کارکردگی‘ کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان اسکواش‘ بیڈمنٹن‘ جمناسٹک‘ تیراکی اور ٹیبل ٹینس جیسے دیگر مقابلوں میں بھی حصہ لے گا لیکن ان میں کوئی تمغہ جیتنے کا امکان نہیں ہے۔ قومی دستے کے لئے کہانی مختلف ہو سکتی تھی اگر ہمارے کھیلوں کے حکام کھلاڑیوں کی تیاری اور تربیت میں زیادہ وقت‘ پیسہ اور توانائیاں لگائیں تو بدقسمتی کو خوش قسمتی سے بدلا جا سکتا ہے جس کے لئے کھیل و کھلاڑی کی سرپرستی سے متعلق قومی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔کھیلوں کے شعبے میں ترقی اس وقت ہی ممکن ہے جب اس کو کھیل نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
کھیلوں کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی اور ا س ضمن میں ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا جس میں تسلسل ہو اور جس کا مقصد حقیقی معنوں میں کھیلوں کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہو۔ کرکٹ کی دنیا میں ہم نے آج جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ اس پر توجہ مرکوز ہے۔ اس کھیل کی بہتری کیلئے ہر سطح پر کوششٰں جاری ہیں اور سب سے بڑھ کر نچلی سطح سے اس کھیل کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔اور جہاں تک ہاکی کے زوال کی بات ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کھیل کی نچلی سطح سے حوصلہ افزائی ایک طرح سے ختم ہوگئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ قومی ہاکی ٹیم نے پوری دنیا پر اس کھیل میں حکمرانی کی اور جس قدر بڑے ٹائٹل تھے ایک وقت تمام کے تمام پاکستان کے پاس تھے۔ہمیں یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرن پڑیگا کہ پاکستانی ٹیم 1978 سے ہاکی کی عالمی نمبر ایک سائیڈ تھی مگراس کے باوجود ہاکی کے کھلاڑیوں کو وہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو کرکٹ کے کھلاڑیوں کو حاصل تھی، میڈیا پر ان کو زیادہ کوریج ملتی رہی اور ملکی کرکٹرز کو حاصل ہونے والی آمدنی کے نصف کے برابر بھی نہیں مل رہا تھا لیکن اس کے با وجود ہاکی ٹیم قوم کی امنگوں پر پورا اترتی رہی اور کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتی رہی۔
اس دوران قومی ہاکی ٹیم نے 1982 میں ممبئی میں کھیلا جانے والا عالمی کپ لگاتار دوسری دفعہ اپنے نام کیا۔ماسکو اولمپکس کے بائیکاٹ کے باوجود پاکستانی ٹیم اولمپک مقابلوں میں اپنی فتوحات کا اعادہ کرتے ہوئے 1984 میں لاس اینجلس میں ساتویں بار اولمپک فائنل میں پہنچی اور اپنا تیسرا اولمپک ہاکی ٹائٹل مغربی جرمنی کو 2۔ 1 سے شکست دے کر جیتا۔ پاکستان ہاکی ٹیم چھ سال کے دوران دو ورلڈ کپ، دو چیمپئنز ٹرافی ٹائٹلز اور ایک اولمپک گولڈ میڈل جیت کر دنیائے ہاکی پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی جس نے ہاکی کو ملک کا مقبول ترین کھیل بنا دیا تھا مگر ان فتوحات کے ساتھ مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں۔ بارہ سال بعد1994سڈنی، آسٹریلیا کے چوتھے عالمی کپ کی کامیابی کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ پاکستان ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام ایک بار پھر پانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اہل وطن کی آنکھیں اب وہ دن دیکھنے کے لیے ترس گئی ہیں جب دنیائے ہاکی پر ایک بار پھر گرین شرٹس کی حکمرانی ہوگی۔نہ صرف ہاکی بلکہ باقی ماندہ کھیلوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کیلئے اب ایک بار پھر منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔