ہم لوگوں میں اتنی سمجھ بوجھ تونہیں کہ ہم اپنے ہیروز کی قدر ان کے جیتے جی کر لیں۔ بلکہ جب تلک کہ وہ زندہ ہوتے ہیں کم ہی ان کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ہم میں نہیں رہتے تو فوراً بھی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ جا کر کہیں پانچ دس سال کے بعد ہمیں ہوش آتا ہے اور ہم ان کی قدر کرنا شروع کر دیتے ہیں، ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے جو فنکار کسمپرسی کی حالت کا شکار ہوتے ہیں۔ بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں ان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تاہم کسی کا دل اس طرف مائل نہیں ہوتا کہ وہ فریادی کی فریاد سن کر اس پر عمل درآمد کا ڈول ڈالیں۔ بلکہ اس کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کئی نامی گرامی شخصیات ہوتی ہیں۔وہ بیماری کی حالت میں گھر والوں سے لجاتا ہے اور گھر والے اس کی ناموری سے پشیمان ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض گھروالیاں تو یہ کہتی ہیں کہ تم نے جتنی کتابیں جمع کر رکھی ہیں اتنی اگر اینٹیں جمع کر لیتے تو ہم اپنا ذاتی مکان تو بنوا لیتے۔ ہاں حکومت کے ہاں سے اس کو سہہ ماہی وظیفہ ملتا ہے جو اس کی ضروریات کے لئے ناکافی ہوتاہے۔جیتے جی اس کی قدر نہ ہوگی مگر وہ دنیا سے وہ منہ موڑ لے تو اس کی یاد میں کئے جانے والے پروگراموں میں اس کی تعریف کر کے اس کو واپس لانے کی کوششیں ہونے لگتی ہیں۔
ایک تو نہیں یہاں کتنے ہی فنکار ہیں جو اس وقت بھی زندہ ہیں اور زندگی کے ساتھ اس مہنگائی کے دور میں اپنے ناتواں بازؤں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔مگر تا بہ کے۔آخر وہ یہ جنگ ہار جائیں گے۔ بہتر ہوگا او رکیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم جن کی قدر کرنا چاہتے ہیں ان کی زندگی ہی میں ان کی عزت افزائی کر لیں۔وہ مر گئے تو ان کے پیچھے پروگرامات کرنے سے کیا حاصل۔ان کو زندگی میں بلا کر ان کے اعزاز میں تقاریب منعقد کی جائیں۔مزا تو اس بات کا ہے۔اس میں کہاں لطف کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کو محفلوں میں سٹیج پر او رحلقوں میں یاد کیا جائے۔زندہ لوگوں کوتو مزا آئے گا کیونکہ روسٹرم پر آکر ایک سے ایک بڑھ کر مقرر اپنی سپیچ جھاڑے گا۔تشبیہہ استعارے اور ادبی زبان کے استعمال سے سامعین کے دلوں کو لبھائے گا جس سے سامعین مرحوم کی تعریف تو نہیں کریں گے ہاں اس تقریر کرنے والے کے الفاظ کے چناؤ کے گیت گائیں گے۔ واہ کیسی تقریر کی ہے اس نے کمال کر دیا ہے۔”جیتے جی قدر میری کسی نے نہ کی۔
زندگی بھی رضا بے وفا ہوگئی“۔کسی کی یاد کی تقریب محفل میں بپا ہو تواس کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد کو بھی یاد کر لینا چاہئے۔اس کے بال بچوں کا احوال بھی پوچھنا چاہئے کہ آپ کیسے ہیں۔ آپ کیاکھا رہے ہیں کھا بھی رہے ہیں کہ نہیں بھوکوں تو گذر نہیں رہی۔بس وہ فنکار وہ ہیرو گیا تو گیا بعد میں اس کے گھروالوں کو تو کوئی کیا پوچھے گا خود مرجانے والے کو بھی کوئی یادنہیں کرتا۔بھلا دیتے ہیں۔ پہلے سال پروگرامات کریں گے پھراس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی یاد کو دل سے نکال دیں گے۔ پھرکہیں برسی آئی تو کسی کے یاد دلانے پراگر اس کویاد کرلیاتو کرلیا ورنہ وہ یاداشت کھو کھاتے میں چلے جاتی ہے۔اس میں ہمارا کوئی دوش نہیں۔ پہلے بھی کسی کے پاس وقت نہیں تھا اور آج بھی کسی کے پاس ٹائم نہیں جو ان بیکار باتوں کی طرف دھیان دے۔لوگ تو بڑے بڑوں کے بڑے بڑے کارنامے بھلا دیتے ہیں۔خود جیتے ہیں اپنے بال بچوں کے لئے زندہ رہتے ہیں اور اپنے لئے جیتے ہیں۔ان کو کیاپڑی کہ کسی کو یاد کریں وقت اپنا برباد کریں۔