سال 1994ء میں اگر کسی کی تنخواہ بارہ ہزار روپے تھی جبکہ ڈالر چونتیس روپے کا تھا اور آج (دوہزاربائیس) میں ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے تو ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت 230 روپے سے تجاوز کر چکی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ عرصے میں‘ تنخواہ بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے۔ پہلا معاوضہ 350 ڈالر بنتا تھا جبکہ موجودہ ماہانہ معاوضہ 220 ڈالر سے کم ہے! ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی سے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے جس کی آمدنی کا واحد ذریعہ تنخواہ ہے اور جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو اِس سے جنم لینے والی مہنگائی کا مقابلہ کرنا تنخواہ دار طبقے کی اکثریت کے لئے ممکنہ طور پر آسان نہیں رہتا۔ مہنگائی سے متاثرہ معیشت میں صرف تنخواہ دار طبقہ ہی نہیں بلکہ یومیہ دہاڑی دار مزدور کی حالت بھی غیر ہے۔ دکانداروں کے لئے یومیہ اخراجات (دکان کا کرایہ‘ آمدورفت‘ یوٹیلٹی بلز‘ ملازمین کی اُجرت وغیرہ) کی ادائیگی آسان نہیں رہی۔ قوت خرید کم ہونے سے صارفین ضروریات کی خریداری سے زیادہ نہیں سوچتے۔ جہاں تک صنعتکاروں کا تعلق ہے تو یہ شعبہ خدمات (سروسز) کے مقابلے میں شرح تبادلہ کے اُتار چڑھاؤ سے نسبتاً محفوظ دکھائی دیتا ہے اور یہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح مہنگائی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
پیٹرول اور ادویات سے لے کر دالوں اور کتابوں تک معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے۔ درآمدی بل ہر سال برآمدی آمدنی کو بڑے مارجن سے بڑھا دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہوتی ہے۔ زر مبادلہ کی شرح مزید بڑھنے سے درآمدی افراط زر کو ہوا ملتی ہے۔ عام طور پر استعمال ہونے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ایک سال پہلے کے مقابلے جون میں اکیس اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ ایندھن کی قیمت میں اضافہ ہے۔ مہنگائی کے اِس دور میں چند ایسے گھریلو ٹوٹکے بھی استعمال ہو رہے ہیں‘ جن کے استعمال سے شرح تبادلہ کے منفی اثرات کم کئے جا سکتے ہیں اور اِس سلسلے میں سب سے نمایاں اور ضروری بچت بجلی و گیس کے استعمال میں کمی کی صورت کی جا سکتی ہے۔ اِسی طرح ایک رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی ڈالروں یا سونے کی شکل میں زیادہ محفوظ سمجھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالروں کی طلب میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور حالات معمول پر آنے کی صورت ڈالر اور سونے کی قدر میں تیزی سے اور اچانک کمی آئے گی جس سے غیرملکی کرنسی میں بچت رکھنے والوں کو نقصان ہوگا۔ اِس سلسلے میں کئی مثالیں موجود ہیں اور اب حالات سال 2000ء کی دہائی جیسے نہیں جب جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت تھا اور اُس وقت مختلف وجوہات کی بنا پر ڈالر کی شرح بمشکل تبدیل ہوتی تھی لیکن آج ہر گھنٹہ اِس میں ردوبدل ہو رہا ہے!
بنیادی بات یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے اثرات سے بچنے کے لئے عوام اگر کچھ کر سکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ پیٹرول اور بجلی کی کھپت میں کمی لائی جائے اور اِس کے علاؤہ زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ پہلو ذہن نشین رہے کہ ایک عام پاکستانی کا معاشی اسرار و رموز کے حوالے سے نقطہ نظر اور معلومات ناقص ہیں۔ انفرادی سطح پر کھپت کم کرنے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جبکہ قومی سطح پر ایندھن اور بجلی کی کھپت کم کرنے پر بھی یک طرفہ توجہ ہونی چاہئے۔ بچت کے ٹوٹکوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تجارتی مراکز (بازاروں) کو شام (بوقت مغرب) سے پہلے بند کر دیا جائے۔ اگر بازار صبح چھ سے شام چھ بجے تک کھلے رکھے جائیں جو کہ قدرتی روشنی کے گھنٹے ہیں تو بہت ساری توانائی بچائی جا سکتی ہے۔ دیر رات گئے تک مارکیٹیں کھلی رکھنے سے بجلی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے‘ جس کے لئے درآمدی ایندھن درکار ہوتا ہے۔ معاشی بہتری کے لئے طویل المدتی ٹوٹکہ یہ ہے کہ پاکستان سے جو غیرملکی کمپنیاں اپنا منافع ڈالروں میں کما کر بیرون ملک بھیج رہی ہیں تو ڈالروں کے اِس اخراج کو روکا جائے اور اِس سے مجموعی معیشت بہتر ہو جائے گی کیونکہ ڈالروں کے اخراج کی رفتار کم ہو گی جو عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر بینکنگ اور پینے کا پانی فروخت کرنے والے کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں کہ اِن میں غیرملکی کمپنیاں مقامی وسائل کا استعمال کرکے سالانہ اربوں ڈالر منافع کما رہی ہیں۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) پاکستان کے معاشی مسائل و مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اور وقت ہے کہ اِس بارے میں سوچا جائے کہ دودھ‘ دہی اور پانی وغیرہ جیسی عمومی استعمال کی اجناس بیچنے کیلئے پاکستان کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آخر ضرورت کیوں ہے؟ ہمیں اپنے بینکوں میں سرمایہ کاری کے لئے غیر ملکیوں کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا پاکستانی بینکنگ‘ کاروبار اور اپنی ضروریات کے مطابق مقامی وسائل سے استفادے کا ہنر نہیں جانتے؟یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے گرد سارے مسائل کا حل گھومتا ہے، یعنی مقامی وسائل سے استفادہ کرنا اور ایسے شعبوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینا کہ جن کے ذریعے نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور ملک کو خود کفالت سے ہمکنار کیا جا سکے بلکہ برآمدات کی صورت میں قیمتی زر مبادلہ کمانے کیلئے بھی راستہ ہموار ہو اور یوں ایک ایسی معیشت پروان چڑھے جس کی بنیاد مضبوط ہو اور جسے مستحکم کرنے کیلئے کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہ ہو۔دیکھا جائے تو یہ ہدف حاصل کرنا اگر چہ مشکل ہوسکتا ہے تاہم ناممکن ہر گز نہیں، اگر اس سمت میں سفر ابھی سے شروع کیا جائے اور ایسی پالیسیاں سامنے لا کر ان کو عملی شکل دی جائے جن سے خودکفالت کا حصول ممکن ہوتو وہ دن دور نہیں جب ملکی وسائل کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی کا سفر تیز سے تیز تر ہوگا اور ہم بیرونی قرضوں سے نجات پالیں گے۔ساتھ ہی کفایت شعاری کو بھی عوامی اور سرکاری دونوں مزاجوں کا حصہ بنانا ہوگا۔
جہاں سرکاری اخراجات کو کم کرکے غیر ضروری خرچوں سے جان چھڑانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا ہوگا وہاں عوام میں بھی یہ شعور اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ ملکی وسائل کا وہ حصہ جو ایک عام آدمی استعمال کرتا ہے بطور شہری وہ کس قدر کفایت شعاری اختیار کرسکتا ہے اور کس قدر وسائل کی بچت ممکن ہے۔آج جن ممالک کو ہم ترقی کی بلندی پر دیکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر نے مشکل حالات بھی دیکھتے ہیں اوران حالات سے نکل کر وہ اس مقام پر پہنچے ہیں۔ جاپان دوسری جنگ عظیم میں جس تباہی سے دوچار ہوا ا س سے دوبارہ ترقی اور عروج کے مقام پرپہنچنا کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ سب کچھ راتوں رات ہو سکتا تھا۔ صحیح سمت میں سفر اور پالیسیوں کے تسلسل نے مشکل کو آسان کردیا اور آج وہ جس مقام پر ہے وہ یقینا قابل رشک ہے۔