دو ایک دن پہلے کی تابڑ توڑ گھنٹہ بھر بارش نے خوب کھل کھیلا رجھ کر اودھم مچایا۔اس طرح کہ جیسے صدیوں کی پیاس تھی اور اچانک کسی نے میٹھے چشمے کے کنارے کھڑے کر کے جام بھر بھر کے نوشِ جاں کروائے۔بارش گھنٹہ بھر رہی اور چھتیں چار چار گھنٹے برستی رہیں۔کہیں تو چھتیں گر ہی گئیں اور تین تین آدمی نیچے دب کر جان کی بازی ہا ربیٹھے۔ بارش نہ ہو تو الگ مصیبت ہو جائے تو ایسی موسلا دھار کہ جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے تو جدا اذیت۔ جو لوگ پختہ مکانوں کے رہائشی ہیں وہ تو لطف و سرور میں رہے۔ چھتوں پر چڑھ کر اس ابرِ باراں کی سخاوت کو خوب انجوائے کیا۔جیسے سمندر کنارے کھڑے ہوں۔ وہ ساگر جو ساحل کے تماش بینوں پر بھی چھینٹیں اچھالتا ہو اور ساتھ اور وہ سیر بین خود بھی اپنے آپ کو جان کر بھگو کر زندگی کی پُرلطف بنانے میں مصروف ہوں۔متواتر ایک گھنٹہ موسلا دھار بارش کیا برسی، یوں لگا سب جل تھل ہے سب اتھل پتھل ہے سارا عالم اس وقت پانی میں ڈوبا ہے۔سمندر کا سفر تھا۔یوں لگابارش نہ رکی تو کیا ہو۔ سب کچھ پانی کے نیچے دب جائے گا۔ کیونکہ یہاں وہاں سے جہاں تہاں سے پاس اور دور کہاں کہاں سے بارشوں کی اطلاعات ہیں۔چوبیس گھنٹوں سے بارش اور یوں کہ وہاں کی سڑکیں تو چلتے چلاتے دریاؤں کی سرزمین بن چکی ہیں۔
ہر چند وہ میدانی او رسمندری علاقے پہاڑوں سے محروم ہیں۔مگر یہ علاقے تو پہاڑی مقامات اور گلگت ناران کاغان کشمیر جیسے بننے کی کوشش کرنے لگے۔ وہاں یہ سیلاب بہتے ہوئے سر پھرے دریاؤں کا روپ دھار چکے ہیں۔ آج تو بعض جگہ مزید بارش کی خبر ہے او راچھی خاصی بارش کی خطرناک اطلاع ہے اور یوں کہ پہلی بارش کے کیچڑ ابھی دُھلے نہیں او رجگہ جگہ پشاور میں پانی کھڑا ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔پھر قدرتی بات ہے کہ موسم ٹھنڈا ہونے لگے تو کھانے کو بھی جی کرتا ہے۔ پچھلے دنوں تو گرمی کی تپش کا یہ حال تھا کہ جیسے آسمان سے آگ برس رہی تھی۔اس موقع پر آتش کا شعر ایڈ کرنے کو دل کر رہا ہے ”نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش۔برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے“۔سخت تپش اور گرمی میں تو جو کھایا وہ ہضم ہی نہیں ہوتا کہ آدمی کا کچھ اور کھانے کو جی کرے۔پہلے کے کھائے سے پیٹ پھول جاتا ہے۔ وہ اپھار ہوتا ہے کہ بندہ جان سے تنگ ہو جاتا ہے۔پھکیاں اور ہاضمہ کے سیرپ بھی اگر پی لو تو کام نہیں نپٹتا۔ اسی لئے بروز جمعرات جب موسم کی خوشگواری دیکھی تو از خود پیٹ کو خوراک کی طلب نے ستایا۔پہلے پہلے تو ہم نے بارش کے رکنے کے فوراً بعد گھر میں آرڈر دیا کہ ما بدولت کے لئے چائے بنائی جائی۔ وہ بھی حیران ہوئے کہ آپ نے تو گرمی کے موسم میں چائے کو ترک کردیا ہے۔پھر قہوہ پر زیادہ گ ذران ہے۔صبح قہوہ شام قہوہ صحت کا پیغام قہوہ۔لیکن ہم نے کہا وہ گرما ہوتا ہے اب تو سردی سے دانت بج رہے ہیں۔
جی کرتا ہے ویسی ہی ٹھنڈی ٹھار بارش دوبارہ ہو مگر خیر کی بارش ہو جو ساتھ تباہی لے کر نہ آئے۔مگر شکر کہ اتنی بھی ہوئی کہ رجھ کر چھینٹے پڑے۔ورنہ تو دوسرے شہروں میں بارش نے وہ تباہی مچائی کہ بیڈ روم میں آدمی نہیں بارش کا پانی لیٹا ہوا ہے۔سب کچھ گھر کا ساز و سامان پانی میں تیر رہاہے۔کل عالم کا بھلا ہو کل کی خیر ہو۔ بارش نہ ہوتو دعائیں اور بارش ہو جائے رک نہ پائے تو الگ انداز کی دعائیں۔سخت گرمی میں آدمی خورد نوش سے بھاگتا ہے مگر بارش ایسی ہو زناٹے دار ہو تو رجھا ہوا آدمی بھی کبھی حلوہ مانگنے لگے کبھی گرم سوپ مانگے گا۔پھربازار میں یخنی والے بھی اپنے پتیلے لے کر کاؤنٹر پر آ جاتے ہیں کیونکہ ان کوگاہکوں کی فطرت اور بازار کے مزاج کا حال معلوم ہوتا ہے۔ہمیں تو چائے کی طلب نے بہت ستایا۔مگر چائے کی اس ایک پیالی نے بہت مزہ دیا۔ لگتا کہ مدتوں بعد چائے حلق میں اتاری ہے۔پیتے ہوں گے کھاتے ہوں گے مگر ہمیں تو گرم موسم بہت ستاتا ہے۔ٹھنڈا پانی پی پی کر پیٹ میں خوراک کی خالی جگہ پربھی یہی مشروبات تیر رہے ہوتے ہیں۔لسی پی کر اپنے گٹوں گوڈوں میں درد کی سی کیفیت ہونا پھر بدن ٹوٹنا اور مدہوشی اور غنودگی کا عالم ہونا،۔ مگر لسی کا رونا کیا روئیں بارش میں تو اوپر چھت پر جا کر فل بٹا فل بھیگے۔لیکن دو دن بعد تک بھی گٹوں اور گوڈو ں میں دہی کے لسی کے بغیر بھی دُکھن کی اندھیر نگری ہے۔