جس سڑک کو آج ہم شاہراہ ریشم کے نام سے یاد کرتے ہیں اس کی کہانی بڑی پرانی ہے تقریبا ً دو ہزار سال قبل اسی راستے کے ذریعے ایشیا کو یورپ اور افریقہ کے ساتھ ملایا گیا تھا تھا اپنے درمیان فاصلوں کو مٹانے کے لئے سمندروں کے سینے کو چیرا گیا تھا اور پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی رستہ بنانے کیلئے مسخر کیا گیا تھا ہزاروں میلوں پرمحیط شاہراہ ریشم امن تعاون اور باہمی تعاون اور اشتراک عمل کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ 130 قبل از مسیح کی بات ہے جب چین کی اس وقت کی بادشاہت کا ایک سفیر امن کے مشن پر مغرب کی طرف روانہ ہوا اس واقع کے چند صدیوں بعد شاہراہ ریشم نے ایک مصروف ترین سڑک کی حیثیت اختیار کر لی اسی راستے سے معروف سیاح مارکو پولو اور ابن بطوطہ بھی چین آ ے شاہراہ ریشم کے رستے سے ہی چینی مٹی کے برتن اور لوہے کا سامان مغرب کو بھجوایا جاتا اسی راستے سے انار انگور مرچ مصالحے چین پہنچے اور ادویات بھی چین میں روشناس ہوئیں اب ایک نئے ولولے اور نئے انداز میں اسی شاہراہ کے ذریعے چین کو ایشیا کے دوسرے ممالک اور افریقہ کے ساتھ جوڑ ا جا رہا ہے۔اب ذرابات ہوجائے دیگر اہم عالمی امورکی تومغربی پابندیوں کے سبب روس افریقہ میں روابط مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف مصری حکام کے ساتھ بات چیت کے لئے قاہرہ پہنچے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد مغرب کی طرف سے سفارتی تنہائی اور پابندیوں کے تناظر میں دیگر ممالک کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں۔ روس کے سرکاری نیوز چینل آر ٹی کے مطابق لاوروف مصر کے ساتھ ساتھ ایتھوپیا، یوگنڈا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کا بھی دورہ کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ اپنے دورے کے دوران عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط سے بھی ملاقات کریں گے۔روسی وزیر خارجہ کا یہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے دورے کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے بعد کیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک مصر نے فروری میں یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے کسی کا فریق بننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے ماسکو اور مغرب دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔مصر دنیا میں گندم کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے، جس کا زیادہ تر حصہ روس اور یوکرین سے آتا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے گزشتہ چند سالوں میں دوطرفہ تعلقات کو کافی مضبوط کیا ہے۔ لاوروف کا قاہرہ کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب روس کی سرکاری جوہری توانائی کارپوریشن، روزاٹوم نے گزشتہ ہفتے مصر میں چار ری ایکٹر پر مشتمل پاور پلانٹ کی تعمیر شروع کی تھی۔اس طرح یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ روس ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دنیا بھر میں پاؤں ایک با رپھر جمارہا ہے۔ چین اور روس دونوں امریکہ کے عزائم کے آگے بند باندھنے میں مصروف ہیں اور اس حوالے سے ان کو کامیابی بھی اس لئے مل رہی ہے کہ امریکہ لاکھ کوشش کرے دونوں کا ایک ساتھ مقابلہ کرنا اس کیلئے مشکل ہے اس لئے تو اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح روس اور چین کے تعلقات میں رخنہ پڑے تاہم، روس اور چین کی قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ماضی میں انہوں نے الگ الگ رہ کر جو نقصان اٹھایا ہے اب مل کر اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ