عزت ِنفس

محترمہ شبنم شکیل نے ہمارے اردگرد پھیلی ایک ایسی حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا‘ جس کے بارے میں بہت کم سوچا جاتا ہے یا جس کے بارے میں بہت کم بات چیت کی جاتی ہے۔ غربت زدہ افراد کے نکتہئ نظر سے سوچنا قطعی آسان نہیں اور اِس مشکل کو آسان بناتے ہوئے اُنہوں نے کہا ”دکھ کا منتر پڑھی ہوئی ہوں: میں غربت میں بڑی ہوئی ہوں …… آدھی ریت سے باہر ہوں میں: آدھی ریت میں گڑھی ہوئی ہوں …… آدھی مان چکی ہوں اُس کی: آدھی بات پہ اڑی ہوئی ہوں!“ غربت میں زندگی بسر کرنے والوں کی تصاویر اور اُن کے حالات کی عکاسی کرتی ویڈیو رپورٹس اکثر ہماری نظروں سے گزرتی ہیں لیکن اِن انتہائی غربت زدہ لوگوں کی تصاویر میں اکثر عزت ِنفس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اُن کی شناخت کچھ اِس طور ظاہر کی جاتی ہے کہ اُن سے ہمدردی تو پیدا ہوتی ہے تو لیکن اِس سے غربت میں کمی نہیں آتی کیونکہ ایسی کوششیں بھی فنون لطیفہ اور صحافت میں مہارت کی ایک شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اکثر بازاروں میں خریداری کرتے
 ہوئے کوئی نہ کوئی بھکاری دست سوال دراز کرتا ہے لیکن ایک ایسا منظر جو شاید بہت کم پلٹ کر دیکھا جاتا ہے وہ ہوتا ہے جب کسی کھانے کی میز سے اُٹھنے والوں کے بعد وہاں کوئی بچہ یا بچہ پہنچ کر باقی بچے ہوئے کھانے کو جلدی جلدی سمیٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ ہوٹل انتظامیہ میں سے کوئی اُن سے روٹی کے ٹکڑے اور بچا ہوا کھانا چھین نہ لے۔ ایسا ہی ایک منظر دیکھنے میں آیا جب کھانے کی ایک میز سے گاہگوں کے اُٹھتے ہی ایک عورت آگے بڑھی اُور اُس نے چادر پھیلا کر میز پر رکھنا کھانا سمیٹنا شروع کیا۔ اِس عمل میں اُس کی چادر کے اندر پناہ لئے چھ سات سال کی لڑکی کا چہرہ دکھائی دیا جو ماں کی طرف سے دیئے گئے روٹی کے ٹکڑے کو کھانے لگی۔ عورت کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا جس میں بچے کو کھانے کو جلدی جلدی ڈال لیا گیا اور صرف کھانا ہی نہیں بلکہ ہڈیاں بھی ڈال لی گئیں کیونکہ اُن کے ساتھ کچھ نہ کچھ اور کہیں نہ کہیں گوشت لگا ہوا تھا۔ واضح طور پر اُسے جو کچھ میسر تھا اُس سے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اِس دوران ہوٹل انتظامیہ کی نظر اُس پر پڑی اور پھر چیخنے اور دھکا دینے کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ اپنے خلاف شاید جسمانی تشدد کے خوف سے وہ دونوں بھاگ گئیں اور ایسی غائب ہوئی کہ جیسے وہ وہاں کبھی تھی ہی ہیں۔ بیٹی کو کھانا کھلانے کی کوشش میں وہ عظیم عورت خود بھوکی رہی لیکن اُس نے دیگر بھکاریوں کی طرح ہاتھ نہیں پھیلایا کیونکہ ایسا کرنا اُسے کی ’عزت نفس‘ کو مجروح کرتا۔ ہمارے اردگرد ایسی بہت سی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جن میں غربت زدہ افراد کو نفرت‘ نازیبا الفاظ و روئیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک لمحے کے
 لئے بھی نہیں سوچا جاتا کہ ہم معاشرے میں جس غربت کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہیں اِس کی وجہ ہم بھی تو نہیں؟بازاروں بالخصوص کھانے پینے کی جگہوں (فوڈ سٹریٹس) میں بھکاریوں کا رش رہتا ہے لیکن اُن میں عزت نفس رکھنے والے ضرورت مند بھی موجود ہوتے ہیں‘جنہیں باآسانی تلاش کر کے اُن کی مدد کی جا سکتی ہے غریب ہونا کسی کی بھی خواہش نہیں لیکن غریبوں کا خیال نہ رکھنا ایک ایسی معاشرتی بے حسی کی عکاسی کرتی ہے جس کا مشاہدہ عام ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر گوشت سے بھرے سرد خانے (ڈیپ فریزرز) اور دسترخوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں جن خوش نصیبوں کو میسر ہیں‘ اُنہیں ایک سماجی و انسانی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ غریب لوگوں میں بھی عزت ِنفس پائی جاتی ہے۔ انتہائی غربت زدہ ہونے کے باوجود بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن اُن کی ضروریات مانگنے سے پہلے ہی پوری کرنے کی اعلیٰ و ادنیٰ عملی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔