گاڑی کے دو پہیے 


کہتے ہیں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔پتہ نہیں یہ کہاوت کس تاریخ کو بنی اور کس مقام پر ایجاد ہوئی۔ کیونکہ جس زمانے کا یہ مقولہ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے اس  زمانے میں دو پہیوں کی سائیکل کا رواج ہوگا۔ جانے پھر اس تعلق کو گاڑی کے دوپہیے کیوں کہا گیا۔اس کا جواب تو کسی کے پاس نہ ہوگا۔  موٹر سائیکل توبعد میں بنا اور وہ بھی کہیں دور پار پچھلے زمانوں کی بات نہیں جتنی کہ اس ضرب المثل کی عمر ہے۔کیونکہ دو پہیوں میں سے ایک پنکچر ہو جائے تو گاڑی بیکار ہو جاتی ہے۔بس آنے جانے والوں کا منہ دیکھتے رہو۔ہاں اگر تبدیلی آئی بلکہ آ گئی ہے تو پھر ہر چیز میں تبدیلی کرنا ضروری ہے۔اس مثل میں بھی ترمیم و اضافہ ضروری ہے۔کیونکہ اب تو گاڑیاں چار پہیوں کی بھی نہیں رہیں۔جدید زمانے کے ساتھ اب تو چھ ٹائر اور پھر ٹرالر کے تو بائیس ویل ہوتے ہیں۔ضرب المثل اور محاوروں کی بھی عجیب دنیا ہے۔ مگر جو جو اپنی قدر قیمت او رمعنویت کھو چکے ہیں وہ بھی اب تک رائج ہیں۔پھر نئے محاورے او روزمرہ اور متہل آسانی سے بن بھی نہیں جاتے۔ ان کے تشکیل پانے میں کم از کم پچاس سال تولگ ہی جاتے ہیں او رپھر ان کے بھرپور رائج ہوجانے میں اور بھی آدھی صدی درکار ہوتی ہے۔یا شاید اس سے زیادہ بھی صرف ہو جائے۔میرا کہنا یہ ہے کہ اس ضرب المثل میں اگر گاڑی کے دو پایوں کے بجائے موٹر سائیکل لفظ کو رواج دیا جائے تو بہتر ہوگا۔کیونکہ ہر چیز جدید ہو رہی تو محاوروں اور زباندانی میں بھی تو جدت آنی چاہئے۔ہمیں تو نہ میاں بیوی پر اعتراض ہے اور نہ ہی ان کے اتحاد و اتفاق کے حوالے سے کوئی شکایت ہے۔مگر جدید دور کی جدت پسندی اور جدیدیت کو سامنے رکھ کر پرانے محاوروں کے انٹر چینج پر غور کیا جانا چاہئے۔مگر اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ کام آسان نہیں۔ایک سٹوڈنٹ نے پوچھا کہ سر جی اردو زبان کب بنی۔مجھے ہنسی آئی میں نے کہا یہ اردو زبان ہے یا واشنگ مشین ہے۔چیزیں جب ایجاد ہوتی ہیں تو ان کی تاریخ تو معلوم ہوتی ہے۔پھر اگر ڈیٹ معلوم نہ ہو تو اس دور کاپتا توچل ہی جاتا ہے۔مگر زبانوں کے بننے کی کوئی تاریخ یا دن مقرر نہیں ہوتا۔زبان کوئی بھی ہو وہ تو ایک پراسس اور مرحلہ وار آگے جانے کا سسٹم ہے۔ جب شہر میں مختلف علاقوں سے لوگ آکرآباد ہوتے ہیں۔ پھر ان کو ایک جگہ رہتے ہوئے صدیاں گذر جاتی ہیں اور وہ اپنی اپنی زبانوں کے الفاظ ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔جس سے آہستہ آہستہ ایک نئی زبان وجود میں آنے لگتی ہے۔میرا مطلب یہ کہ وجود میں فوراً نہیں آجاتی۔ ایک آہستگی کا عمل ہوتا ہے جس کتنی نسلوں کو تو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ ہماری وجہ سے ایک نئی زبان  ہمارے ہی درمیان میں وجود پا رہی ہے۔اب ایجاد کا ذکر آیا تو بائی سائیکل ہی کو لے لیں پہلے تو یہ سائیکل تھا ہی نہیں۔انسانوں نے ایک پہیہ پر گھومنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔یقین ہے کہ میاں بیوی والا  یہ مقولہ دو پایہ سائیکل کے ایجاد ہونے کے بعد ہی سامنے آیا ہوگا۔کیونکہ ایک پہیہ پر گھومنے والے سائیکل سوار کبھی بھی یہ مہتل نہیں بنا سکتے۔ یہ توجب بائی سائیکل بنی ہوگی تو پھر کہیں میاں بیوی کے نام اس سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہوگی۔ میں کہتا ہوں کہ تبدیلی کے اس زمانے میں پیچھے نہ جایا جائے کہ اس جملے میں تبدیلی کر کے گاڑی کی جگہ بائی  سائیکل کا لفظ لایا جائے۔ہاں دورِ حاضر کو سامنے رکھ کر موٹر سائیکل کے لفظ کو ساتھ شامل کر لیں تو اچھا ہوگا کہ میاں بیوی موٹر سائیکل کے دو پہیے ہیں۔پھر خدا لگتی بات ہے کہ آج کل پٹرول کی گرانی میں یہ بھی بہت بڑا رسک ہے کہ میاں بیوی کو موٹر سائیکل کے دو پہیے قرار دیا جائے۔کیونکہ بعض اوقات بلکہ اکثراوقات یوں کہیے کہ ہمارے خود کے بائیک کے دونوں پہیے بیکار ثابت ہوجاتے ہیں لہٰذا اس جدیدیت کو دیکھ کر اور موجودہ دور کی آسانیوں کو ذہن میں لا کر ٹرک کے بائیس پایے نہ سہی مگر اس ضرب المثل میں ترمیم و اضافہ کر کے اس کو میاں بیوی کے حوالے سے موٹر سائیکل کے دو پہیوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔کیونکہ آج کل تو گرمی کا موسم ہے اس لئے شہری زیادہ تر ہوا خوری کے لئے موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں او رپھر کمال یہ کہ جان بوجھ کر تیز چلاتے ہیں خواہ بائیک پرمیاں بیوی بال بچوں کے سمیت سوار ہوں۔وجہ یہ کہ وہ گھر میں دیواروں کے بیچ حبس والے ماحول سے نکل کر سڑک پر تیز جاتے ہیں تاکہ ان کو ٹھنڈی ہوا کا سرور آئے۔ان کو ایکسیڈنٹ کی فکر نہیں ستاتی بس جو ہوگا دیکھا جائے گا۔