وہ دور یقینا قابل رشک تھا جس میں ماؤزے تنگ، چو ائن لائی، جنرل فرانکو،نیلسن مینڈیلا،جولیس نیارے، پیٹرک لوممبا،فیڈل کاسترو،شی گویرا، سوئکارنو، جمال عبدلاناصراور مارشل ٹیٹو جیسے رہنماؤں نے جنم لیا۔ان میں سے ہر ایک نے اپنے ملک اور قوم کیلئے اہم کارنامے انجام دئیے،اپنے ملکوں سے غربت کو ختم کرنا ان کا مشن تھا اور اپنے اپنے انداز میں وہ اپنے ملکوں میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آ بادی کو اس لکیر سے اوپر لے آئے۔یہ کوئی کم کارنامہ نہ تھا اس طرح دنیا کی تاریخ میں وہ اپنا نام سنہرے حرفوں میں لکھواچکے ہیں۔ تیسری دنیا کے غریب عوام کیلئے وہ ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں،ہمیں بھی خدا نے قائد اعظم کی شکل میں ایک بے مثال رہنما عطا کیا تھا پر شومئی قسمت کہ وہ داعی اجل کو بہت جلد لبیک کہہ گئے ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آ ئیے ایک ہلکا سا تذکرہ ان مسائل کاہو جائے جو عالمی اور قومی افق پر چھائے ہوے ہیں۔ خبط عظمت بڑی خراب شے ہے اس نے دنیا کی کئی سپر پاورز کو زوال کا شکار کیا۔ کسی دور میں سوویت یونین کا ہر سو طوطی بولا کرتا تھا وہ اسی خبط عظمت کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ گیا جب اس کی قیادت نے دنیا کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا سلسہ شروع کیا تو بعد میں وہ اسے سنبھال نہ سکے اور اپنے ہی وزن کے نیچے دب کر رہ گیا۔
اب وہ سکڑ کر صرف روس تک محدود ہو گیا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے، کہاں گئی وہ سلطنت برطانیہ کہ جس کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ سورج اس پر غروب ہی نہ ہوتا تھا۔ لگ یہ رہا ہے کہ اب امریکہ کا نمبر آ رہاہے وہ بھی اب چادر سے زیادہ اپنے پاؤں پھیلا رہاہے کیا عجب کل کلاں چین اور روس کے ہاتھوں اس کا کریہ کر م ہو جائے۔یہ خبر پڑھ کر کہ برطانیہ کو 30 لاکھ سے زائد محنت کشوں کی کمی کا سامنا ہے اور زراعت ایئرلائنز اور مہمان نوازی سمیت مختلف صنعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور یہ کہ لیبر قوانین میں نرمی کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ہمیں دوسری جنگ عظیم کے فورا ًبعد والے برطانیہ میں پیدا ہونے والے اسی قسم کے حالات یاد آگئے جن کی وجہ سے برطانیہ نے اپنی سرحدوں کے دروازے غیر ممالک سے آ نے والے افراد کیلئے کھول دئیے تھے اور یہی وجہ ہے کہ1950 سے لے کر ایک لمبے عرصے تک برطانیہ جاکر وہاں آ باد ہونے میں پاکستانیوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا، ہر کوئی لندن کا ٹکٹ خرید کر ہوائی جہاز میں سوار ہو جاتا تھا ویزا اس کو لندن پہنچنے پر وہاں بہ آ سانی ایئرپورٹ پر لگا دیا جاتا تھا۔
یہ تو بعد میں کہیں جا کربرطانیہ نے اپنے امیگریشن کے نظام میں سخت قسم کی تبدیلیاں نافذ کر دیں اب چونکہ وہاں لیبر کی کمی کا مسئلہ سر اٹھانے لگا ہے اور قدامت پسند کنزرویٹو پارٹی رو بہ زوال ہے جو برطانیہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے غیر ملکیوں کے آ نے جانے کے خلاف ہے اور اس کی جگہ لیبر پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ نظر آ رہا ہے جو کہ انگلستان کے موجودہ امیگریشن کے نظام کے خلاف ہے تو اسی وجہ سے شاید وہاں غیر ملکیوں کو اب وہاں آ نے جانے اور وہاں آ بادہونے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ اس وقت ان کو افرادی قوت کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہتیہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس بھی ملک کے پاس تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ افرادی قوت ہوگی وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔