طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ جن کی مختلف النظریات رائے اور اجتماعی طاقت کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی صورت ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو رہا بلکہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لئے پہلی قربانی نظریاتی مؤقف کی دیتی ہیں۔ اِس بات کو سمجھنے کے لئے بیسویں صدی کے وسط میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر کرنا ہو گی جب جنوبی کوریا کی حکومت نے مقامی قوم پرستی اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کے لئے معاشی استحکام پر توجہ دی اور ’قومی پیداواری صلاحیت‘ میں اضافہ کیا۔ یہی جذبہ اور حکمت عملی بنگلہ دیش میں تبدیلی کا باعث بنی اور بنگلہ دیش کی معاشی کامیابی کا محرک ہے۔ پاکستان میں بھی قومی ترقی اور مساوات کی بحث چل رہی ہے لیکن یہ ترقی اور مساوات اُس وقت حاصل نہیں ہو گی جب تک سیاسی جماعتیں اپنے طرز فکر میں تبدیلی نہ لائیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آج کی تاریخ میں سیاسی جماعت اور سیاسی کارکن ہونے کا مطلب کیا ہے اور یہ تصورات کن نظریات کے گرد گھومتے ہیں۔اگر پاکستان میں کبھی بھی ’پائیدار قومی ترقی‘کا کوئی منصوبہ وضع کیا جائے گا تو اسے کسی ایسے نظریئے کی بنیاد پر تعمیر کرنا ہوگا جو سب سے پہلے اقتصادی آزادی کو ممکن بنائے اور قرضوں پر منحصر معیشت کے قبضے سے قومی فیصلہ سازی کو آزاد کرنے کا مؤجب بنے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال پر آج جس قدر مایوسی پائی جاتی ہے وہ کبھی بھی اِس قدر غیریقینی کا مجموعہ نہیں رہی۔ عوامی سطح پر زیادہ تر بات چیت گھریلو اخراجات اور مہنگائی کے دباؤ کی ہوتی ہے کیونکہ ملک کو بدترین عالمی مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔قومی فیصلہ سازوں کے لئے ترجیح ملکی معیشت کو گرداب سے نکالنا ہے اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشی بہتری و اصلاح پہلی نہیں بلکہ دوسری ترجیح ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو آبادی میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ کے تکلیف دہ ادوار سے نمٹنے کی عادی ہے۔ متعدد ماہرین اقتصادیات اور کاروباری شخصیات نے ذکر کیا ہے کہ یہ بحران حکومت اوراپوزیشن کے درمیان میثاق معیشت (چارٹر آف اکانومی) کا متقاضی ہے اور یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ معاشی سیاست کا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ معیشت کے ارد گرد ہونے والی سیاسی گفتگو میں جو ایک چیز (پہلو) اکثر نظرانداز رہتا ہے وہ ”مشترک مستقبل“ کا احساس ہے۔ مختصر دلیل یہ ہے کہ معیشت فطری طور پر سیاسی معاملہ ہے۔ اس کی بہتری کے لئے ایسے فیصلے کرنا ہوتے ہیں جن کے تقسیمی نتائج ہوں اور اِس سے عوام کو فائدہ پہنچے کہ اُنہیں کس شعبے میں کس قدر سبسڈی دی جائے۔
اگر ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو اتفاق رائے کی راہ دکھائی نہیں دے رہی تو دیگر ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے پاکستان سے زیادہ معاشی مشکل حالات میں اصلاحات کو آگے بڑھایا۔ پاکستان کے لئے معاشی طور پر آگے بڑھنے کا کوئی بھی راستہ آسان‘ قلیل المدت اور مختصر نہیں بلکہ کھٹن اور تکلیف دہ ایڈجسٹمنٹس پر مشتمل ہوگا جس کے لئے تمام عام و خاص کو قربانی دینا ہوگی۔ ایندھن کی قیمت میں اصلاحات‘ بجلی کے ٹیرف میں اصلاحات‘ مارکیٹ اصلاحات‘ ٹیکس شرح میں اضافہ وغیرہ سب اقدامات کا اثر اگر صرف عام آدمی پر پڑے گا تو اِس سے معاشی استحکام و اطمینان کا دور دورہ نہیں ہوگا بلکہ محنت کش نچلے طبقے کی طرح اُن اوپری طبقات پر کبھی سختی کرنا ہوگی جن کی منافع میں کمی نہیں ہو رہی! اگر حکومت سبسڈیز ختم کرنا چاہتی ہے تو اِس کا آغاز کاروباری اور صنعتی طبقات سے ہونا چاہئے۔