کہتے ہیں پیرس کی سڑکیں آئینے کی طرح صاف ہیں۔ ہوں گی مگر ہم نے نہیں دیکھیں۔ہم تو مینڈک کی طرح کنویں کے اندر اپنے حصے کے آسمان کو دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں کہ یہی ہماراآسمان اور کنویں کے اندر یہی ہماری زمین ہے۔ہم تو چمکنی سے آگے جائیں تو ہم سِک ہونے کی وجہ سے دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔باہر ملکوں کی سڑکیں جو آئینے کی طرح صاف ہیں۔وہ تو بارش کے دنوں میں دُھل کر اور بھی نکھر جاتی ہوں گی۔ مگر ہمارے ہاں بارش میں سبزہ ضرور دُھل کر نکھر جاتا ہے۔مگروہ بھی چند دنوں کے لئے۔پھر بارش میں وہ گند مچتا ہے کہ بندہ نادم ہونے لگتا ہے کہ میں نے بارش کی دعا کیوں مانگی تھی۔ کیونکہ اب تو شہر بھر میں کیچڑ کے ریبڑھے گُھل جاتے ہیں۔کار والے تو اس پھسلن والے کیچڑ تھپی ہوئی راہ سے گذر جاتے ہیں۔مگر بائیک والے تو کہیں بال بچوں سمیت پھسل گئے تو زمین پر آرہتے ہیں اور کپڑے الگ گندے بچوں کو جدا چوٹیں آتی ہیں۔ ہمارے ہاں کا دستور نرالا ہے۔یہاں بارش تو دل کے لئے باعثِ خوشی ہے مگر شہری انتظام کے لئے ایک امتحان ہے۔ہمارے ہاں تو ”پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے“۔پھر بارش ہو جائے یہی علاقے تالابوں کی سرزمین بن جاتے ہیں۔جو پہلے سے گڑھے ہوتے ہیں وہاں توپانی ایسا جمع ہوجاتا ہے کہ دھوپ نکلے تو اگر سوکھ گیا سوکھ گیا۔ وگرنہ ہر راہ چلتے کے کپڑوں پر چھینٹے پڑتے ہیں۔اس لئے کم ہوکر یہ پانی اگر خشک ہو تو ہو سکتا ہے۔مگر جو سڑکیں ثابت و سالم ہیں ان میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔پھر وہا ں اس بارش کے کارن اضافی کھڈے وجود میں آ جاتے ہیں۔
پانی تو قطرہ قطرہ بھی کسی سل پر مسلسل گرے تو اس میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔پھریہ قطرے قطرے سے دریا بننے والا پانی یہ بارش کے طوفانی جھکڑ تو شہر والوں کے لئے عذابِ جاں بن جاتے ہیں۔ کیونکہ معصوم بچوں کو بجلی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کرنٹ بھی آخر کس شئے کانام ہے۔ بارش میں چلتے چلتے بجلی کے کھمبے کوہاتھ لگاتے ہیں تو وہیں چپک جاتے ہیں۔پھر ان کے بے جان لاشے سے دھوئیں نکلنے لگتے ہیں۔چاہئے کہ جب چاند رات سے قبل اعلانات کرتے ہیں کہ ہوائی فائرنگ نہ کریں۔اسی طرح برسات میں گلی گلی لاؤڈ سیپکروں سے اعلانات کروائے جائیں کہ بارش کے ان دنوں کھمبوں وغیرہ کو ہاتھ نہ لگائیں۔ کیونکہ ہمارا بجلی کا نظام تو پہلے ہی درہم برہم ہے اوپر سے ہمارا بجلی کی تاروں کا انتظام اور بھی تاخت و تاراج ہے۔گلی گلی کیچڑ اور گند گریل جمع ہے۔اب صفائی کا عملہ گند صاف کرے یا کیچڑ دور کرنے کا بندوبست بھی کرے۔ آدھ میل کا سڑک کا ٹکرا ہوگا اور وہاں اتنا پانی جمع ہو جائے گا کہ پیدل گزرنا دشوار ہو جائے۔اگر اپنی چپلیوں اور پائنچوں کو گندا کرنا ہے تو پھر وہاں سے پانی میں پاؤں مار کر گزرنا گراں نہیں۔لیکن جو اس گندے اور رکے ہوئے پانی سے بچنا چاہتے ہیں۔
وہ پانی کے اس بنے بنائے تالاب سے پہلے سڑک کے بائیں جانب کھڑے ہو جاتے ہیں۔پھر جو موٹر سائیکل سوار آتاہوا دکھائی دے اس کی پچھلی سیٹ پر سوارہوکر پانی کے پار اُتر جاتے ہیں۔جب سڑکیں بنتی ہیں تواس وقت پانی کے سلوپ کا بندوبست کرنا چاہئے۔ مگرہمارے ہاں یہ انتظامی معاملات اول تو ہو نہیں پاتے اور ہونا چاہیں تو معمولی کام پر اتنی لاگت اٹھتی ہے کہ فنڈ دینے والے حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ رقم گئی تو کہاں گئی۔اس لئے یہ تعمیرات کے کام کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں اور فنڈ مل نہیں پاتے۔ذرا سنجیدگی ہو تو کیا مشکل ہے۔ کیامجال جو بارشوں کا پانی ہمارے شہر میں جمع ہو پائے۔ہماری سڑکوں کا جب یہ حال ہو کہ بارش ہونے سے مزید گند مچ جاتا ہو تو ہمارے دیہات کے گلی کوچوں کا منظر تو ان دنوں کی برسات میں عبرت ناک ہو جاتا ہے۔ جہاں سے بندہ گذر کر گھر جانے کی کوشش کرے توچپلیاں اتار کر بازؤں میں داب لے۔اس دوران میں وہ اگر پاؤں پھسلنے سے کیچڑ میں گر کر لت پت ہوگیا تو اس امکان کو بھی بارش کے امکان کی طرح ذہن میں رکھ کر دھیرے دھیرے پاؤں اٹھائیں جیسے وہ شعر کہ ”ان کے پاؤں پہ مہندی لگی ہے۔
آنے جانے کے قابل نہیں ہیں“۔کیونکہ پاؤں تو دھولے گا مگر جوتیاں پانی سے دھوئے تو خراب ہوں اور پھر سوکھنے میں وقت لیں۔کاش ہماری سڑکیں بھی آئینے کی طرح صاف ہوں۔بھلے سال کے بارہ مہینے نہ ہوں مگر بارش میں تو ہو جایا کریں۔ہمارا سبزہ اگر بارش رکے تو سبز کے بجائے سلیٹی رنگ کا ہوجاتا ہے۔کیونکہ یہاں وہ دھول دھبے مٹی گرد وغبار ہے کہ یہی سبزہ ڈھال بن مٹی کو اپنے اوپر لپیٹ لیتا ہے اور شہریوں کو صاف ہوا دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔شہر میں سڑک کنارے کی گرین بیلٹ کو لیں یا کناروں پر واقع پودے اور درخت وغیرہ کو دیکھیں تو عام دنوں میں جب بارش نہیں ہوتی یہ سبزہ انتہائی میلا کچیلا ہوتا ہے۔