جرائم کہانیاں 

پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ تشویشناک ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کا شکار ہر عمر کی لڑکیاں اور خواتین ہو رہی ہیں اور یہ کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اِس سلسلے میں ایک تازہ ترین ’جرم کہانی‘ ڈیرہ غازی خان سے متعلق ہے جہاں ایک امریکی شہریت رکھنے والی خاتون نے سیاحتی مقام ’فورٹ منرو‘ کے ٹور گائیڈ اور اس کے دو ساتھیوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ غیر ملکی نژاد خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اِس لئے بھی پریشان کن ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے سیاحت کی صنعت متاثر ہو گی اور پاکستان کو عالمی سطح پر غیرمحفوظ ملک قرار دیا جائے گا۔صرف سیاحت ہی نہیں بلکہ پاکستان میں خواتین کام کاج کی جگہوں اور آمدورفت (پبلک ٹرانسپورٹ) کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ 

خواتین کے خلاف جب بھی ایسے جرائم رونما ہوتے ہیں تو اِن کے خلاف وقتی طور پر غم و غصہ اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اور پھر چند دن گزرنے کے بعد سب کچھ معمول پر آجاتا ہے۔ معمولات زندگی بحال ہو جاتے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہر ایسی خبر وقت میں محو ہو جاتی ہے اور اگلے کسی جرم تک خوفناک خاموشی چھائی رہتی ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کا خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ اِس میں جرم کی عکس بندی اور فلم بندی کی جاتی ہے اور اِسے ’بلیک میلنگ‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک کے تمام سیاحتی مقامات پر مقامی حکام کو یہ بات (اقدام) یقینی بنانا چاہئے کہ جنسی جرائم کے متاثرین کو فوری مدد فراہم کی جائے اور اِس مقصد کے لئے تربیت یافتہ خواتین پر مشتمل عملہ موجود ہونا چاہئے۔ 

وقت ہے کہ خواتین کے پولیس سٹیشنوں کی تعداد اور افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ جرائم کے ناقابل تردید شواہد میں ’ڈی این اے‘ تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) کلیدی کردار ادا کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ’ڈی این اے لیبز‘ کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان کو جدید لیبز اور جدید ترین تفتیش و استغاثہ کے نظام (طریقوں) کی ضرورت ہے جس کے بغیر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی شرح کم ہی رہے گی۔ جب ہم عصمت دری پر بحث کرنے اور اس سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کا شمارمتاثرہ ممالک میں ہوتاہے۔  اِس صورتحال سے جنم لینے والے عمومی ماحول کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی مذمت کرنے میں مصلحت سے کام لینے کی بجائے کھل کر اظہار‘ جرائم روکنے اور انصاف کے نظام کی خاطرخواہ فعالیت (مستعدی) کے لئے ضروری ہے کیونکہ جو بدقسمت واقعات آج دیگر انجان خواتین کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔

کل یہی دکھ ہماری آنکھوں کو نم اور دلوں کو دکھی کرنے کا مؤجب ہو سکتے ہیں‘ اِس لئے سر اُٹھا کر خواتین کے لئے ایک محفوظ و مامون ماحول کا مطالبہ کرنا وقت کی ضرورت ہے اور پورے معاشرے کو یعنی ہم میں سے ہر ایک کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی اسی ماحول کا حصہ ہے اگر یہ ماحول خواتین کیلئے خطرناک ہے اور وہ محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہر کوئی اسے اپنے حوالے سے دیکھے۔خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ان کو فوری اور سخت سزاؤں کے ذریعے ہی کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔