قابل تقلید پالیسیاں 

چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ کی لکھی ہوئی کتاب ”گورننس آ ف چائنا“ پڑھنے کی کتاب ہے اس کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے گزشتہ 50 برسوں میں زندگی کے ہر شعبے میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کا راز کیاہے۔ وہ آخر کس قسم کی پالیسیاں تھیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر چین میں غربت کا خاتمہ کیا گیا اور آج ان کی وجہ سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ہمارے حکمرانوں کو اس کتاب کے مندرجات سے سبق سیکھنا چاہئے،اندھے کو کیا چاہئے دو آ نکھیں، اس ملک کا عام آدمی کیا چاہتا ہے یہی ناں دو وقت کی با عزت روٹی،علاج معالجے کی سہولت،سر پر اپنی چھت اور اپنی عزت نفس کی حفاظت۔ دنیا کی تقریبا آ دھی آ بادی چین میں بستی ہے ان سب کی بنیادی ضروریات کو بطریق احسن پورا کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے ان سب کو حفظان صحت کے مطابق خوراک میسر کرنا،ان کی طبی ضروریات کو پورا کرنا،ان کیلئے محفوظ اور تیز رفتار ٹرانسپورٹ کا بندوبست،ان کیلئے شفاف پینے کے پانی کی فراہمی،قدرتی آ فات کا مقابلہ کر نے کا بروقت انتظام۔ دنیا کو چین کی ترقی نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

 ہمارے ارباب اقتدار کو ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا کہ جن کو اپنا کر چین ترقی کی بلندی پرپہنچ گیا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے ہر شعبے میں ہم بالکل اسی قسم کی انقلابی تبدیلیاں لائیں کہ جس قسم کی تبدیلیاں چین کے ارباب بست و کشاد نے چین میں لاکر اس ملک کی کایاہی بدل ڈالی ہے۔ چینی صدر کی اس کتاب کو ہر پاکستانی بغور پڑھے کہ اس میں  دانش و تجربے کا ایک خزانہ پنہاں ہے۔اب اگر بات ہوجائے چین سے ہی متعلق ایک اور معاملے کی جو عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے، اور وہ ہے تائیوان کا مسئلہ جس کی آڑ لے کر امریکہ چین کے ساتھ چھیڑ خانی میں مصروف ہے اور چین بھی اس ضمن میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔چین تائیوان کو نہ صرف اپنے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے بلکہ وہ یہ عزم بھی رکھتا ہے کہ اگرضروری ہوا تو طاقت کے استعمال سے جمہوری حکومت والے اس جزیرے کو اپنے ساتھ متحد کر لے۔ حالیہ برسوں کے دوران چین اور تائیوان کے مابین اس جزیرے کی حیثیت پر اختلافات کی وجہ سے کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور ا س میں کوئی شک نہیں کہ تائیوان کے ساتھ چین کا کوئی بھی فوجی تصادم امریکہ کو بھی اس لڑائی میں گھسیٹ لائے گا کیونکہ تائی پے حکومت کے ساتھ واشنگٹن کے خصوصی تعلقات ہیں۔

چین اور تائیوان 1949 سے الگ ہیں۔ ایسا تب ہوا تھا، جب چینی خانہ جنگی ما زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔ اس وقت شکست خوردہ قوم پرست، جن کی قیادت ما ؤکے حریف اور کومِن ٹانگ پارٹی کے سربراہ چیانگ کائی شیک کر رہے تھے، تائیوان چلے گئے۔تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور آزادانہ حکومت قائم ہے۔ تائیوان کو سرکاری طور پر جمہوریہ چین کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے۔آبنائے تائیوان اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے۔بیجنگ کاشروع سے موقف ہے کہ صرف ایک چین ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔ چین دنیا بھر کے ممالک پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ بیجنگ کا ساتھ دیں اور تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کریں۔تائیوان اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کا بھی رکن نہیں ہے حالانکہ اس کے پاس ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کی رکنیت ہے۔ چین دنیا بھر کی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ تائیوان کو چین کا حصہ قرار دیں۔ 2021 میں چین نے یورپی یونین کے رکن لیتھوانیا کے ساتھ تجارت منقطع کر دی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس یورپی ملک نے اپنے دارالحکومت میں تائیوان کو ایک نمائندہ دفتر کھولنے کی اجازت فراہم کی تھی۔

اس خطے میں چین اور امریکہ کے درمیان طاقت کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے اورامریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے ہیں تاکہ خطے میں امریکی فوجی طاقت کو پیش کیا جا سکے۔ چین اور امریکہ کے درمیان یہاں پر کشیدہ تعلقات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گاجبکہ دوسری طرف بیجنگ حکومت نے تائیوان کو دوبارہ چین کا حصہ بنانے کے لیے طاقت کے استعمال کو مسترد نہیں کیا ہے۔ جنوری 2019 کی ایک اہم تقریر میں چینی صدر شی جن پنگ نے دوبارہ اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جمود ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا۔ ان کا اس وقت کہنا تھا کہ ہم طاقت کے استعمال کو ترک کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کرتے اور تمام ضروری ذرائع اختیار کرنے کا آپشن محفوظ رکھتے ہیں۔چینی صدر نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ 2049 تک دنیا میں ملک کی عظیم طاقت کی حیثیت کو بحال کرنے کے چینی خواب کی تعبیر کے لئے دوبارہ اتحاد ضروری ہے۔چین تیزی سے اپنے لڑاکا، بمبار اور نگرانی کرنے والے طیارے تائیوان کے قریب بھیج رہا ہے جبکہ اس کے جنگی جہاز بھی آبنائے تائیوان میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں۔طاقت کے استعمال کی آمادگی، چین کی تیزی سے پھیلتی ہوئی فوجی صلاحیتوں اور آبنائے تائیوان کے اردگرد بگڑتے حالات نے یہ خدشات پیدا کیے ہیں کہ یہاں امریکہ اور چین کے درمیان جھڑپ ہوسکتی ہے جو بین الاقوامی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔