برما صورتحال

برما (میانمار) میں جمہوریت پسندی کو ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا ہے اور اِس جرم میں ملوث ہونے والوں کو سزائے موت جیسے انتہائی فیصلیکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رواں ہفتے میانمار کی فوج نئے چار افراد کو پھانسی دی‘ جن کا جرم یہ تھا کہ اُنہوں نے آمرانہ حکومت کی مخالفت اور جمہوریت کی حمایت کی تھی۔ برما کی عوام اور حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور اِن دونوں کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک طرف عوام وحشیانہ جبر سے خوفزدہ نہیں تو دوسری طرف ظلم و ستم کرنے والے بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں اگرچہ میانمار میں جاری مظالم کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ فوجی حکمرانوں کو پرواہ نہیں کیونکہ میانمار میں طویل عرصے سے آمرانہ حکمرانی کا دور چل رہا ہے اور اِس میں پھانسیاں معمول کی بات ہیں۔ زبانی کلامی مذمت کی بجائے مثالی طور پر عالمی برادری کو سفارتی اور معاشی دباؤ ڈالنا چاہئے لیکن سزائے موت کی پالیسی کے خلاف عالمی رہنماؤں کی جانب سے کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں آیا۔

 شاید دنیا توقع کر رہی تھی کہ فوجی حکمران جلد ہی میانمار کو دوبارہ جمہوریت کی راہ پر ڈالنے پر آمادہ ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور جاری ہلاکتیں رکنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومت کے جھوٹے مقدمات اور موت کی سزائیں جمہوری اصولوں اور قانونی کاروائیوں کی صریح بے توقیری کا مظہر ہیں اگرچہ بہت سے ممالک میں فوج نے جمہوریت کو بجھانے کی کوشش کی ہے لیکن میانمار کا تجربہ مختلف ہے اور کم از کم اکیسویں صدی میں اس قسم کے جبر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حالیہ تاریخ میں‘ شاید خطے کا واحد دوسرا ملک تھائی لینڈ ہے جہاں سال دوہزار چودہ میں ایک حاضر سروس جنرل نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا تھا اور وہ اب بھی حکمران ہے لیکن آمرانہ حکومتیں اس بنیادی نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں کہ پھانسی اور ظلم و ستم کے دوسرے حربوں کے ذریعے لوگوں کے جذبے کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔ جمہوریت کی خواہش اور اِس کے لئے جدوجہد کرنے والوں کا شمار ہمیشہ زیادہ رہتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں کی بالادستی دیکھنا چاہتے ہیں۔ برما میں جن چار افراد کو پھانسی دی گئی ان میں آنگ سان سوچی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق قانون ساز اور جمہوری کارکن بھی شامل ہیں۔

 برما میں زیرحراست جمہوری کارکنوں کی جان خطرے میں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مزید پھانسیاں دینے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ فروری 2021ء میں برما بغاوت کے بعد سے دو بچوں سمیت کم از کم 75 قیدیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ چالیس سے زائد افراد کو غیر حاضری میں موت کی سزا سنائی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اب وہ اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے یا اپنے ہی ملک میں چھپ کر رہیں گے۔ بین الاقوامی اداروں کو برما میں مزید مظالم کو روکنے کے لئے کوئی درمیانہ اُور قابل عمل راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ یورپی یونین‘ جاپان‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے اور اقوام متحدہ پہلے ہی برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سزائے موت جیسی سزاؤں کے خلاف اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ثابت ہو چکا ہے کہ میانمار کی حکومت جمہوریت پسندوں کے بڑے پیمانے اور منظم طریقے سے قتل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس نے دیگر طبقات کے خلاف بھی اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا ہے‘ جنہیں حکومت اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی طاقتوں کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا میانمار کے عوام پر ہمیشہ کے لئے ظالم حکمران مسلط رہیں گے؟