آدمی کے پاس وقت کی شدید کمی ہونے لگی ہے۔جتنا پیچھے جائیں اتنا آپ اس معاشرے کے انسان کو فارغ پائیں گے۔مگر آج کل تو آدمی کے پاس جیسے سانس لینے کی بھی فرصت نہ ہوکہ آخر جیا کیسے جائے۔ سو دھندے روز کے اور بے شمار مسئلے روزانہ ہیں۔ جن سے آدمی دوچار رہ کر مزید ضرب اور تقسیم ہوتا ہوا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔آج تو سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں۔مگر کیا زمانہ تھا کہ حجروں اور گاؤں کی چوپال میں کہیں بیٹھے تو بیٹھے رہ جاتے تھے۔ کہیں کسی طرف کا کوئی غم نہ تھا۔
دفتر سے واپس آتے تو بس آ جاتے۔ پھر کہیں دوسرے دن جانا ہوتا اور دوسرے دن از خود چھٹی کر لیتے تواو رہی مزا ہوتا۔دکان بند کر کے آتے توبے فکری ہی بے فکری تھی۔ اب تو کاروباری لوگوں کے شٹر ڈاؤن کر کے بھی دکان بارے اور بہت غم ہیں جن سے پیچھا نہیں چھوٹتا۔یہی وجہ ہے کہ بندہ کے پاس وقت کمی نے اسے اپنی چیزوں کو مختصر کرنے کا ہنر عطاکر دیا ہے۔دور نہ جائیں اب تو اس پربھی سوچ بچار ہو رہی ہے کہ ایک روزہ کرکٹ میچ کے پچاس اوورز بہت زیادہ ہیں۔ون ڈے میچ کو ہمیشہ کے لئے بند کردیں۔
ان کو بیس بیس اوورز تک محدود رہنے دیں۔ پھر یہ کہ اب تک تودس دس اوورز کے کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ہوئے ہیں۔پہلے تو چھ روزہ کرکٹ میچ ہوتا تھا۔ پھر ماضی میں جب خود کھلاڑیوں کے پاس یاپھر تماشائیوں کے پاس ہی وقت نہ رہا تو انھوں نے اس ٹیسٹ میچ کو پانچ روز میں بدل لیا۔ پھر بھی وقت کی کمی آڑے آئی تو یہی میچ تین روزہ مقابلوں میں بدل گئے۔ پھرون ڈے میچ ہوئے اور اب تو کرکٹ اتنی فاسٹ ہوچکی ہے کہ آدمی کے سو جنجال ہیں،سو ان کو دیکھ کر پھر ٹی ٹوئنٹی میچوں کا ڈول ڈالا گیا۔ یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا کیونکہ کچھ بھی ہو میچ کا فیصلہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ جو کسی ٹیم کی ہار جیت پر اختتام ہوتا ہے۔
ایک روزہ میچ میں بھی صبح سے بیٹھو اور شام کے سائے ڈھلنے کا انتظار کرو۔ویسے کرکٹ میں یک روزہ میچوں کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے۔ان میچوں کا ایک آغاز ایک درمیان اور ایک انجام ہوتا ہے۔ جس کو بندہ درست طریقے سے دیکھتا سمجھتا ہے۔مگر اس کو اب ختم کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ اختصار جتنا ہو اتنا اچھا لگتا ہے۔مگر اب اتنا اختصاریہ بھی کیاکہ ہر گیم کے میچ کے اپنے دورانیہ کا ایک اپنا سا ایک سرور ہوتا ہے۔
خدا کی پناہ ایک طرف بھی گیارہ کھلاڑیوں کی کھیپ او ردوسری جانب بھی گیارہ کھلاڑیوں کا دستہ اور میچ دس دس اوورز کا ہو تو اس قسم کے مقابلے کا مزہ ہی کیا۔کیونکہ ہار جیت کے علاوہ کرکٹ میچ کا مزہ بھی تو لینا ہوتا ہے۔جب پانچ روزہ کرکٹ ٹیسٹ میچوں کے فیصلے نہیں ہوپاتے تو کھلاڑی الگ تنگ آ جاتے ہیں۔پھرمعلوم ہوتا کہ ٹیسٹ بغیر فیصلے کے ختم ہو گیا۔ کھلاڑیوں کے دلوں کو الگ جھٹکا اور تماش بینوں کو الگ دھچکا لگتا۔ اب دور نہ جائیں انسانی مصروفیت کو سامنے رکھ کر دیکھیں پہلے کتابیں تو لوگ پڑھتے تھے مگر موٹی موٹی کتابیں او ران کی اقساط ہوتی تھیں۔ اڑھائی ہزار صفحوں کی داستانیں ہوتی تھیں۔ طلسمِ ہوش ربا اور داستانِ فسانہ ئ عجائب او رجانے کیا کیا۔ داستان شروع ہوتی تو ختم ہونے ہی میں نہ آتی۔
ہم خود بچپن میں جا کر کوہاٹی بازار اندرون شہر ایاز لائبریری سے داستانوں کی سیریز کی ایک آدھ کتاب لے آتے۔ پڑھتے اور ختم ہوتی تو جاکر اگلا والیوم لے آتے۔ ایک داستان ہوتی مگر سلسلہ ختم ہونے میں نہ آتا۔پھر وہی زمانہ تھا ستر کی دہائی کا اختتام تھا کہ ناول نے ہمارے ہاں رواج پانا شروع کیا او رناول چل نکلے او رناول لکھے جانے لگے۔پھر بیس سال تک یہ جادو سر چڑھ کے بولنے لگا مگر آدمی کی مصروفیت زیادہ ہوتی گئی او رپھرجاکر افسانے کا دور شروع ہوا۔ اب ناول اڑھائی سو صفحوں کا ہوتا تھا اور افسانہ زیادہ سے زیادہ تین چار پیج کا ہو کر رہ گیا۔ اب تو دو ہزار بائیس میں یہ عالم ہے کہ افسانہ بھی سمٹ کر مائیکرو فکشن تک محدودہوگیا ہے اور حتیٰ کہ سو لفظوں کی کہانی کا جنم ہوچکا ہے۔دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے۔