گڈ گورننس 

 سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافے سے پتہ چلتاہے کہ محکمہ صحت اور متعلقہ میونسپل ادارے اس معاملے میں کس قدر غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے افراد کو جب سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں ویکسین لگوانے کے لئے لے جایا جاتا ہے تو وہاں پر موجود عملہ انہیں کہتا ہے کہ مارکیٹ جا کر خود ویکسین خرید کر لا ئیں کیا اس قسم کے برتاؤ کو گڈ گورننس کا فقدان اگر نہ کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے دکھ اس بات کا ہے کہ میڈیا میں تو اس قسم کی غفلت کے واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں پر ہماری اسمبلیوں کے فلور پر اس قسم کے واقعات پر شاذ ہی اس شد و مد سے بات ہوتی ہے کہ جتنی دوسرے معاملات پر کی جاتی ہے‘مون سون  کے موسم میں ہر سال سیلابی ریلے اس ملک کے فزیکل انفراسٹرکچر کو نا قابل تلافی مالی نقصان پہنچاتے ہیں پر مجال ہے کہ متعلقہ محکموں کے کان پر  جوں بھی رینگتی ہو وہ ماضی سے سبق لے کر مستقبل کیلئے بالکل بروقت کوئی پلاننگ نہیں کرتے اور نہ کوئی حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہیں

جس کا نتیجہ  پھر یہ نکلتا ہے کہ سیلابی پانی سے نہ صرف ملک کو ہر سال مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس سے لوگ متعدد قسم کی بیماریوں کا شکار بھی ہوتے رہتے ہیں اسے بھی گڈ گورننس کا فقدان ہی کہا جائے گا بالکل اسی طرح ہماری سڑکوں پر روزانہ جتنے لوگ ٹریفک کے حادثات میں لقمہ اجل ہو رہے ہیں ان کی تعداد ان افراد سے کم نہیں کہ جو عارضہ قلب یا کینسر سے روزانہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اگر ہماری ٹریفک پولیسنگ کا نظام درست ہو جائے تو ان حادثات کو کم کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا جو مسئلہ ہے وہ اخلاقیات کا ہے یہ دانشوروں کا کام ہے کہ وہ اس زہر کا کوئی تریاق نکالیں‘سوشل میڈیا ایک شتر بے مہار کی مانند ہے معاشرے میں غیر اخلاقی قسم کا کلچر پھیلانے میں اس نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کلیدی کردار ادا کیا ہے اس لئے اس کا بروقت تدارک ضروری ہے۔