پہلے تو کھلے کھلے گھر ہوا کرتے تھے مگر وقت بدلا تو وہی دیوار و در تنگ و تاریک ہو گئے ہیں ہم چھوٹے تھے او رگھر بڑے بڑے ہوا کرتے تھے مگر اب اتنا سمجھ میں ضرور آیا ہے کہ اس وقت اتنی آبادی نہ تھی کہیں کہیں لوگ ہوتے اور یہ جلسے جلوس بھی نہ تھے کہ معلوم ہومردم شماری زیادہ ہوگئی ہے‘اب تو جس طرف منہ پھیرو انسانوں کا ایک ہجوم ہے جو اپنے آپ کو قوم کہتا ہے مگر ہجوم کہاں کوئی قوم ہوا کرتا ہے ہجوم تو بھیڑوں بکریوں کا بھی ہوتا ہے‘ قوم ہونے کی اپنی نشانیاں ہوتی ہیں۔ تہذیب،شرافت،نظم و ضبط،پاسداری،رسوم و رواج،ثقافت، سمجھ بوجھ،ایک دوسرے کو برداشت کرنا،ایک دوسرے کا مؤقف ٹھنڈے دل سے سننا،لڑائی جھگڑوں سے کنارہ کشی، غصے کے سامنے مسکراہٹ، چلو تو راستہ مل جائے،جگر میں ٹیس اٹھے تو مسیحا سامنے ہو۔مگر یہاں تو اور حال ہے اب تو گھر چھوٹے چھوٹے لگنے لگے ہیں ”شہروں ہی میں تو ہوتا ہے تنہائی کا احساس۔شہروں ہی میں تو ہوتے ہیں
گھرسب سے زیادہ“ یہ کیسے شہر زیر تعمیر ہیں اور کیسے کیسے بنے بنائے ہیں جہاں رش ہے اور گھروں اور عمارات کی بھرمار شور شرابا ہے ہلا گلا،ایک دوسرے کو راستہ نہیں مل رہا ممتاز شاعرمصطفےٰ زیدی کے اشعار یاد آ رہے ہیں۔ جن کا انتقال 1970ء میں ہوا‘بہت سے شعری مجموعوں کے خالق ”کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے۔فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے“ اب تو شہر میں لوگ اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ کسی کو کسی کے ساتھ ملنے کی فرصت نہیں ہے فراز کاشعر ہے ”مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے ملنے والے۔صبح آ جائے کوئی شام کو آ جائے کوئی“ اب تو حال یہ ہے کہ شہری مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ کوئی آپ سے ملے یا آپ خود کسی سے ملیں مگر خود اپنے لئے وقت نہیں رہا۔شہروں میں تنہائی کا احساس زیادہ ہو رہا ہے وہ گپ شپ کے ماحول میں ملنا اور وہ حجروں مجلس اور بیٹھکوں کی رونق خاک ہوئی۔ وہ جو بڑے بڑے گھر ہوتے تھے اور ہم چھوٹے ہوتے تھے
اب وہ ڈھا کر نئی تعمیر کر دی گئی ہے ایک مکان میں سے تین مکان نکل آئے ہیں کیونکہ گھرمیں نفری زیادہ ہوگئی ہے بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں اور پھر آگے ان کے بچے ہیں یہ سب کہاں جائیں گے پھر آپس کی نا اتفاقیاں بھی زوروں پر ہیں سو جو گھربڑا تھا وہ تقسیم ہوگیا ہر ایک اپنی فیملی کو اپنے پروں تلے سمیٹ کر ایک طرف ہوگیاخود ایک جو گھر تھا اس کے بھائی ایک دوسرے سے دور مکانات تعمیر کرنے کو جا چکے ہیں‘شہر کے سولہ دروازوں کے اندر ایک مکان میں جو خونی رشتے مقیم تھے اب ان میں سے کوئی تو حیات آباد شفٹ ہو چکے ہیں اورکچھ شہر کی مشرقی اور واپڈا کالونی تک جا پہنچے ہیں۔بیچ میں جو کالونیاں پڑتی ہیں سب کی سب بھرگئی ہیں‘ورسک روڈ کی جانب شہری آبادی کھسک گئی ہے۔ وہا ں کالونیاں اور ٹاؤن ترتیب پا رہے ہیں جو کچھ باقی تھے
وہ کوہاٹ روڈ اور دلہ زاک روڈ اور پھر اس سے آگے اپنے سکون کی خاطر کم پیسوں میں کھلی رہائش خرید کر بیٹھ رہے کیونکہ خاص شہر کے اندر ان کو ان کے مکان کی قیمت اتنی ملتی ہے کہ جتنے پیسوں میں وہ شہر کے باہر اچھی خاصی کھلی ڈلی رہائش اور باغ باغیچے والے بنگلے لے رہے ہیں کیونکہ اندرونِ شہر تو اب کاروباری مرکز بن چکا ہے مکانات جو گلی کے اندر تھے وہ اب گلی کے باہر کی مارکیٹوں کے گودام بن گئے ہیں‘ مگر جوں جوں زمین کے نرخ بڑھتے جا رہے ہیں اندرون فصیل شہر باسیوں کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مارکیٹوں کے قریب شہریوں کے مکانات تو بس ان کے پاس کیش کی صورت پڑے ہیں جس وقت جی چاہا فروخت کر کے رقم اینٹھ لی اور تین مرلہ کے اس مکان کے بدلے شہر کے باہر دور کر کے کسی نے پندرہ مرلے لے لئے او رکسی نے دس مرلہ بنوا کر اس میں جا دھمکے‘مکانات جو شہر کے اندر بڑے ہوتے تھے وہ بھائیوں کی شادیوں کے بعد سمٹ گئے اور اب انہوں نے شہرکے باہر اپنے الگ بڑے گھر لے کر ایک دوسرے سے دور سکون سے رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں‘پتا نہیں سکون کس شے میں ہے کبھی تو اکھٹا رہنے میں ہوتا ہے اور کبھی الگ الگ رہنے میں پایا جاتا ہے اسی طرح شہر تشکیل پاتے ہیں پہلے گاؤں ہوتا ہے اورپھر سہولیات آجانے کی وجہ سے وہ علاقہ پس ماندہ نہیں رہتا جوں جو ں یہاں ترقی ہوتی ہے یہاں کے رہائشیوں کے دل سخت ہونے لگتے ہیں۔