بیسویں صدی میں یوں تو اس خطے کے کئی ملکوں میں چھوٹے موٹے انقلابات آئے ہیں پر جن دو عوامی انقلابات نے اس خطے کے محنت کشوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی اور ان کو معاشرے میں اہم مقام دلانے میں اہم کردا ر ادا کیا وہ دو انقلاب جو یکے بعد دیگرے روس اور چین میں برپا ہوئے۔ روس میں اس انقلاب کے ذریعے لینن بر سر اقتدار آئے اور چین میں ما ؤزے تنگ۔انقلاب روس 1917 میں برپاہوا اور انقلاب چین 1949 میں۔ ان دونوں انقلابات نے ان دو ممالک میں بسنے والوں کی جیسے کایاہی پلٹ دی۔ زندگی کے ہر میدان میں ان دو ممالک نے حیرت انگیز ترقی کی۔ روس صرف روس نہ رہا بلکہ سوویت یونین بن گیا۔ یہ درست بات ہے کہ گو کہ روس کے دیکھا دیکھی چین میں بھی 1949 میں سرخ انقلاب آ گیا پر ایک لمبے عرصے تک آ پس میں شانے سے شانہ ملانے کی بجائے دونوں ممالک اپنی اپنی علیحدہ راہ چلتے تھے۔میدان میں ترقی کا یہ عالم تھا کہ وہ چاند پر امریکہ سے پہلے پہنچ گیا۔
اگر امریکہ اسے زک دینے کیلئے نیٹو کا قیام عمل میں لایا تو اس کے بدلے میں اس نے فورا ًوارسا پیکٹ کے تلے اپنے ہم خیال ممالک کا فوجی بلاک مرتب کر لیا۔ اس کشمکش میں چین اور روس میں بیک وقت ایسی قیادتیں بر سر اقتدار آئیں کہ جن کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا تھا کہ اگر امریکہ کی سازشوں کا موثر جواب دینا ہے تو ان کوایک جان دو قالب ہونا پڑے گا۔ سوویت یونین کبھی بھی نہ ٹوٹتا اور اس کے حصے بخرے کبھی بھی نہ ہوتے اگر وہ اپنی چادر سے زیادہ اپنے پاؤں نہ پھیلاتا اور خوا مخواہ دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت نہ کرتا۔ اب چند دیگر عالمی امور کا جائزہ لیتے ہیں جہاں ترکیہ اور جرمنی میں تلخی پیدا ہونے لگی ہے کیونکہ جرمن وزیر خارجہ نے اپنے یونان کے دورے میں کہا کہ ایجیئن جزیرے یونان کا علاقہ ہیں،اس پر ترکیہ نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ترک وزیر خارجہ مولود چاس آلو نے مشرقی بحیرہ ایجیئن کے جزائر کے علاقائی تنازعے میں یونان کی طرف داری کرنے پر، اپنی جرمن ہم منصب انالینا بیئربوک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔استنبول میں جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اس تنازعے میں ایک ثالث کا کردار ادا کرنے کی حیثیت سے جرمنی اپنی غیر جانبداری کھو چکا ہے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاس آلو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جرمنی مشرقی بحیرہ روم اور ایجیئن کے معاملے میں اپنا متوازن موقف برقرار رکھے،انہوں نے مزید کہا کہ برلن کو خاص طور پر یونان اور یونانی قبرص کی جانب سے اشتعال انگیزی اور پروپیگنڈے کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے۔ ایجئین جزائر پر ترکیہ اور یونان کے درمیان ایک دیرینہ تنازعہ ہے اور یورپی ممالک اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ادھر ایتھنز نے جرمنی پر زور دیا کہ ایک ایسے وقت جب کشیدگی برقرار ہے، اسے چاہئے کہ وہ ترکیہ کو عسکری ساز و سامان کی فراہمی روک دے۔جبکہ دوسری طرف ترک حکام کا کہنا ہے کہ اگر یونان اپنے معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جزائر پر اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھتا ہے، تو مشرقی یونان کے جزائر کی خود مختاری کو متنازعہ بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت ترکیہ ایک طرف نیٹو میں توسیع کے معاملے پر امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ الجھا ہوا ہے کیونکہ ترکیہ کو اعتراض ہے کہ جن ممالک کو وہ نیٹو میں شامل کرنے جار ہے ہیں وہ ترکیہ کے مفادات کے خلاف اقدامات کے مرتکب ہورہے ہیں اور ترکیہ مخالف قوتوں کو سپورٹ کر رہے ہیں اس لئے ترکیہ نے ان دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی اور مخصوص شرائط پر ہی ان کو شمولیت کی اجازت دی۔ تو دوسری طرف اب یہ نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔