کرکٹ: آگے کون؟

ورلڈ ٹیسٹ کرکٹ چیمپیئن کے پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت جنوبی افریقہ کا راج ہے۔ وہ 71.43فیصد جیت کے تناسب کے ساتھ آسٹریلیا سے بھی آگے ہے۔ وہی آسٹریلیا‘ جس کا اِسے سامنا بھی کرنا ہے۔ شائقین کرکٹ کو انتظار ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کے اگلے امتحانات بھی بڑے مشکل ہیں۔ تین ٹیسٹ میچ برطانیہ میں اور تین آسٹریلیا میں ہوں گے۔ اگر جنوبی افریقہ کو اپنی فتوحات کا تناسب ساٹھ فیصد سے زیادہ رکھنا ہے تو اسے کم از کم ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز تو ضرور جیتنی ہوگی۔ اگر آسٹریلیا یا برطانیہ میں سے کسی ایک ٹیم کو دو ایک سے بھی ہرا دیا تو ویسٹ انڈیز کے خلاف دو صفر کی کامیابی انہیں باآسانی فائنل تک پہنچا سکتی ہے یعنی اِن کی کامیابی کے امکانات خوب روشن ہیں۔ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے اور اس کے تو مزے ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر ستر فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور اب بھی اس کے نو ٹیسٹ میچ باقی ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ آسٹریلیا کے ہوم گراؤنڈ پر کھیلے جائیں گے جس کا مطلب آسانی ہے۔ 

آسٹریلیا کو ایک چیلنج ضرور درپیش ہے اور وہ یہ کہ اسے بھارت کا دورہ کرنا ہے لیکن ایڈوانٹیج دیکھیں کہ اگر آسٹریلیا اپنے پانچوں ہوم ٹیسٹ میچ جیت جائے تو بھارت کے ہاتھوں کلین سوئپ بھی اسے 63فیصد سے نیچے نہیں لاسکتا یعنی فائنل کھیلنے کا امکان تب بھی باقی رہے گا۔ بھارت اِس وقت ٹیبل پر چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے چھ ٹیسٹ میچز باقی ہیں‘ جن میں کامیابی کے ذریعے وہ مزید آگے جاسکتا ہے۔ یہ سیریز بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کے خلاف کھیلی جائیں گی اور تمام ٹیسٹ میچز جیت کر وہ 68فیصد تک پہنچ سکتا ہے یعنی آسٹریلیا سے بھی آگے نکل جائے گا۔ تو اِس منظرنامے میں کیا پاکستان اور بھارت ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیل سکیں گے؟ اگر پاکستان ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کھیلنا چاہے تو اِسے اپنے باقی ماندہ تمام ٹیسٹ میچز جیتنے ہوں گے اور بھارت کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا‘ تبھی لارڈز میں حقیقی مقابلہ (ٹاکرا) دیکھنے کو ملے گا۔

 زمینی حقیقت یہ ہے کہ گال میں دوسوچھیالیس رنز کی شکست کی وجہ سے پاکستان کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر تھا مگر دوسرے ٹیسٹ میں شکست کے بعد پانچویں نمبر پر چلا گیا ہے‘ جہاں سے واپس ٹاپ ٹو میں آنا اور فائنل تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ سری لنکا نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز بھی برابر کی تھی لیکن آسٹریلیا اس چیمپیئن شپ میں اتنا آگے ہے کہ یہ شکست بھی اس کو اعزاز کی دوڑ سے باہر نہیں کر پائی۔ البتہ پاکستان کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ اسے سری لنکا کے خلاف اور اپنی آئندہ آنے والی سیریز بھی جیتنی تھیں لیکن بابر الیون اس مشن کے پہلے ہی مرحلے میں ناکام ہوگئی۔گال میں پاکستان کا کھیل لمحہ فکریہ ہے۔

 ٹیسٹ کرکٹ محض اس لئے مختلف نہیں کہ اس میں زیادہ دنوں کا کھیل ہوتا ہے بلکہ اس طرز کی کرکٹ میں جیت کی حکمت ِعملی اور کھیل کا انداز مختلف ہوتے ہیں مثلاً ضروری ہوتا ہے کہ حریف کی تمام وکٹیں حاصل کی جائیں۔ جب تک ایسا نہیں کرسکتے‘ جیت ممکن نہیں ہوتی۔ اس لئے محض رنز روکنا کافی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جس ٹیم کے پاس حریف کو آل آؤٹ کرنے کی صلاحیت نہ ہو‘ اس کے لئے مقابلہ جیتنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دوسرے ٹیسٹ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پہلی اننگ میں 258 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ کرنے کے بعد ضروری تھا کہ سری لنکا کی باری 300 سے پہلے پہلے لپیٹ دی جائے لیکن باؤلرز نے باقی ماندہ سری لنکن بلے بازوں کو زیادہ رنز تک پہنچنے دیا۔ دوسری اننگ میں تو حال اور بھی بُرا رہا۔117رنز پر سری لنکا کی پانچ وکٹیں لے لیں لیکن پھر بھی سری لنکا آٹھ وکٹوں پر 360رنز بنا گیا اور پاکستان کو مشکل ہدف دیا گیا یعنی 508رنز کا ہدف تاریخ میں کسی ٹیم نے حاصل نہیں کیا۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن نے بھی دوسرے ٹیسٹ میں بہت مایوس کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

 پہلے مقابلے میں تو ایک‘ دو بلے بازوں کی ناقابلِ یقین اننگز تھیں جو مقابلہ بچا گئیں لیکن ایسے معجزے بار بار نہیں ہوتے۔ بالآخر باؤلنگ کے بعد پاکستان کی بیٹنگ کمزوری بھی دوسرے ٹیسٹ میں کھل کر سامنے آگئی۔ گزشتہ میچ کے ہیرو عبد اللہ شفیق دو اننگز میں صرف سولہ رنز بناسکے۔ امام الحق‘ رضوان اور فواد عالم یعنی بابر اعظم کے سوا سبھی ٹاپ آرڈر بیٹسمین ایک بار بھی پچاس کا ہندسہ تک پار نہ کر پائے۔ اب اس طرح کیسے مقابلہ جیتا جاسکتا ہے؟ پھر دورہئ سری لنکا میں ہمیشہ سپن باؤلنگ کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے۔ اس شعبے میں بھی پاکستان نے بہت مایوس کن کارکردگی دکھائی۔ پہلے میچ میں تو چار فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتر گئے۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ مقابلہ جیت گئے ورنہ کسر کوئی نہ چھوڑی تھی لیکن دوسرے ٹیسٹ سے پہلے شاہین آفریدی زخمی ہوگئے اور یوں پاکستان اپنے مین سٹرائیک باؤلر سے محروم ہوگیا۔ 

اس کا ازالہ تین سپنرز کھلا کر پورا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یاسر شاہ میں‘ چند بہت اچھی گیندوں سے ہٹ کر‘ پرانی کاٹ اور دم خم نظر نہیں آیا۔ گال کہانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اس لئے کیونکہ اب مارچ 2023ء سے پہلے محض دو سیریز باقی ہیں‘ وہ بھی برطانیہ اور نیوزی لینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کے خلاف۔ اگر پاکستان فائنل کی دوڑ میں برقرار رہنا چاہتا ہے تو اسے برطانیہ کے خلاف تینوں اور نیوزی لینڈ کے خلاف دونوں ٹیسٹ میچ جیتنے ہوں گے۔ اس صورت میں پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کی جیت کا تناسب 69فیصد ہوجائے گا لیکن ایک بھی شکست کھائی تو یہ تناسب 61فیصد ہوگا یا دو ٹیسٹ میچ بھی ڈرا کھیل لئے تو فائنل کھیلنے کی ضمانت نہیں رہے گی۔