کالم کا جو عنوان ہے وہ اطلاع بھی ہے اور پشیمانی کے عالم میں دکھ بھرا جملہ بھی ہے۔تیسرے یہ کہ ایک سوال بھی ہے۔کیا اب ہم اتنے فارغ ہیں کہ ہمارا اور کوئی کام نہیں رہا۔جیسے ایک پستول دکھلا کر پورے طیارے کو ہائی جیک کیا جاتا تھا۔ اسی طرح آج کل ایک ٹچ موبائل بتلا کر ہماری پوری قوم کو نفسیاتی طور پر اغوا کر لیا گیا ہے۔انھوں نے موبائل کیا بنایا جیسے ہمیں الو بنا یا ہے۔کسی کا اب اس رنگین سکرین کے بغیر گذارا ہی نہیں۔بچہ یا بڑا جس کے ہاتھ موبائل لگا یوں کھو ساجاتا ہے کہ اپنا آپ بھلا دیتا ہے۔اس میں کسی عمر کے خاص حصے کا فرق نہیں۔ پھر نہ تو مرد وزن علیحدہ علیحدہ ہیں۔ کسی گھر کے اندر کے ماحول میں کیا دیکھیں بازار میں کھلے عام سب نظر آ جاتا ہے۔کسی کو گھر میں سازگار فضا مل جاتی ہے اور کسی کو یہی آب وہوا کھلی جگہوں پر مثال سڑکوں پر پیدل اور گاڑی میں سٹیرنگ گھماتے بھی یہی ماحول آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔
سڑک پر کون آگے جا رہاہے کون پیچھے کون گاڑی سے لگ جائے کسی بائیک سوار فیملی کو دھکا نہ لگے اور وہ سڑک کنارے کی بڑی نالی میں نہ جا گریں۔کسی کو کسی چیز کی پروا ہی نہیں۔ خود بائیک والے بھی تو خاتونِ خانہ کو ساتھ لئے او رآگے پیچھے بچوں کی ایک خاطر خواہ تعداد جن میں کسی بھی ننھی عمر کے بچے شامل ہیں ایک ہاتھ سے موٹر بائیک چلاتے ہیں او رایک ہاتھ سے موبائل استعمال کرتے ہیں۔بلکہ اگر رش ہو اور ان کو موقع مل نہ پائے تو وہ کاندھے کے ساتھ موبائل کھینچ کر کان کے قریب کر لیتے ہیں۔ میں حیران ہوں ان کو پیچھے بیٹھی خواتین بھی منع نہیں کرتیں۔ مگر وہ بیچاری کیا کہیں گی۔ اگر کچھ کہہ دیں تو شوہر صاحب اول توان کی نہیں سنیں گے اور سنیں تو ان سنی کردیں گے اور ان سنی نہ کریں تو ان کو جھاڑ کرایک آدھ جملہ ایسا بول دیں گے کہ خاتون کے لئے اس مقام پر خاموشی سے بہتر کوئی رویہ نہیں ہوسکتایہ کس بات کی سخاوت ہے کہ انھوں نے موبائل تو خود استعمال نہیں کرنا مگر ہمارے لئے انھوں نے مفت کی ویب انسٹال کر دی ہیں۔
آخر ان کو فائدہ کیا ہے۔کیونکہ کسی مفاد کے بغیر وہ قومیں تو کوئی چیز عام نہیں کر دیتیں۔ جانے وہ اس اقدام سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ویسے عالم گیر جنگیں جو لڑی گئیں وہ زور زر پھر ہتھیاروں کی بنیاد پر واقع ہوئیں۔ آج کل تو ہر ملک نے خطرناک ترین ہتھیار بنا رکھے ہیں۔ لیکن آنے والے زمانے کی خدا نہ کرے مگر جنگیں ہتھیاروں کے ذریعے نہ ہوں گی۔ آنے والے زمانے میں جنگیں کمپیوٹر کی بورڈ کے بٹنوں پر انگلیوں کو رقص کرنے سے لڑی جائیں گی۔جن کی انگلیوں میں چابکدستی ہوگی۔ وہ انگلیاں جو ان کے دماغ کے ساتھ انٹر لنک ہوگی وہی قوم فاتح ٹھہرے گی۔ اب کے دشمن نے وہ چال چلی ہے کہ ہمارے جسم و جاں کو کسی طرح بھی معلوم نہ ہوپائے کہ وہ ہمیں ہر آن اسی موبائل کے ذریعے نوٹ کر رہے ہیں۔
علامہ اقبال جب باہر ملک گئے تو ان کے فرزند مرحوم جسٹس جاوید اقبال نے ان کو وہاں سے گراموفون لانے کا خط لکھا۔ اس پر علامہ نے ان کو ایک نظم لکھ کر بھیج دی۔ اس نظم کا عنوان ”جاوید کے نام“ رکھا۔ اس میں انھوں شعر لکھا ”دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر۔ نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر۔اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں۔ سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر“۔ مطلب یہ ہوا کہ انگریزوں کے پتلے او رنازک شیشے کے گلاسوں کے لئے تڑپنا چھوڑ دے اور اپنے دیس کی مٹی سے کٹورے بنا۔وہ جنھوں نے موبائل جیسی جادوئی چیز بنائی وہ خود تو اتنی فرصت نہیں رکھتے کہ اس کو استعمال کریں۔ اگر کیا تو ایک وقت کے لئے اس کو ہاتھ میں تھاما پھر رکھ دیا۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ جلسے میں تقریر کے دوران میں بھی مقرر موبائل استعمال کرتا ہوگا اور ان سیاسی ورکروں کے ہائی لیول کے اجلاس میں بھی ان کے ہاتھ میں موبائل آن ہوگا اور پھر اگر یہ نیوزکانفرنس میں بھی ہوں تو ساتھ ہی ساتھ موبائل پر ان کو ہدایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔