یہ بات خوش آئند ہے کہ پاک افغان بارڈر باب دوستی پیدل آ مدو رفت کیلے بحال کر دیا گیاہے پرجس چیز کا کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان نے اب تک کوئی ایسی امیگریشن پالیسی بنائی بھی ہے کہ جس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان سے آنے والے افراد ویزے کی معیاد ختم ہونے پر واقعی اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ افغانیوں کی ایک اکثریت یا تو پاکستان میں ہی قیام پذیر ہو جاتی اور یا پھر پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد دیگر ممالک چلی جاتی ہے وزارت داخلہ کو اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر اقدام اٹھانے ہوں گے۔اسی طرح چین کا افغان باشندوں کیلئے ویزے بحال کرنے کا اعلان ایک صائب فیصلہ ہے جو ان دونوں ممالک کیلئے سودمند ثابت ہوگا۔ چینی حکومت نے افغانستان سے 98 فیصد درامدات کو ٹیکس میں استثنیٰ دینے کا بھی جو فیصلہ کیاہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ یہ بات تو اب واضح ہے کہ چین سی پیک کا دائرہ افغانستان تک بڑھانا چاہتا ہے جو ایک اچھی سوچ ہے چین کا اس خطے میں سی پیک کے توسط سے جتنا اثر و رسوخ بڑھے گا۔
امریکہ کی پریشانی میں اسی قدر اضافہ ہو گا کیونکہ واشنگٹن کا منصوبہ یہ ہے کہ جس طرح اس نے سوویت یونین کے سازش کے ذریعے حصے بخرے کئے بالکل اسی طرح وہ چین کو بھی انتشار کا شکار کرے پر چین کی قیادت اس کے عزائم کو بروقت بھانپ چکی ہے اور وہ اس خطے میں امریکہ کی ممکنہ سیاسی اور فوجی موجودگی کو زائل کرنے کیلئے ایک ایسی پالیسی پر کار بندہے کہ جس کے تحت وہ اس خطے کے عوام کی فلاح اور معاشی بہتری کے ترقیاتی کام کر کے ان کا دل جیتنا چاہتی ہے۔ سی پیک اس کی اسی کوشش کا ایک جز ہے۔ امریکہ کی اس خطے میں سیاسی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار کافی حد تک اس بات پر منحصر ہوگا کہ چین اور روس کب تک یک جان دو قالب رہتے ہیں کیونکہ مستند رپورٹیں یہ ہیں کہ معروف سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر کیسنجر کی زیر نگرانی امریکہ کے پالیسی ساز ادارے خصوصا ًامریکہ کی سی آئی اے کو یہ ٹاسک حوالے کیا گیا ہے کہ وہ چین اور روس کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کے درمیاں دراڑ پیدا کرنے کے مختلف آپشن پر کام کرے کیونکہ جب تک ماسکو اور بیجنگ کا آ پس میں چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے۔
امریکہ ان دونوں ممالک کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔امریکہ کی طرف سے چین اور روس کے ساتھ چھیڑ خوانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اس نے جہاں روس کو یوکرین میں جنگ پر مجبور کیا ہے وہاں وہ چین کو تائیوان کے معاملے میں آخری حد تک جانے پر مجبور کر رہا ہے تاکہ جنگ کی صورت میں چین کی معاشی ترقی پر اثر پڑے۔ اور اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ چین نے کہا ہے کہ وہ تائیوان کے سامنے اپنے ساحل پر لائیو فائر فوجی مشقیں شروع کر رہا ہے۔ یہ اعلان نینسی پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کے باعث چین اور امریکہ کے مابین بڑھتے تناؤ کے دوران کیا گیا ہے۔چین نے گزشتہ روز آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان سے قبل بیجنگ نے واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے اپنے دورہ ایشیا کے دوران تائیوان کا دورہ بھی کیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شینہوا کے مطابق چینی فوج صوبہ فوجیان کے پنگٹن جزیروں کے قریب صبح آٹھ بجے سے شام نو بجے تک لائیو فائر فوجی مشقیں کر رہی ہے۔
میری ٹائم تحفظ کی انتظامیہ نے بحری جہازوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس علاقے سے نہ گزریں۔اس اعلان میں یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ آیا ان فوجی مشقوں کے دوران توپوں، میزائیلوں، جنگی جہازوں یا دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیا جائے گا۔بیجنگ حکومت تائیوان پر اپنی عمل داری کا دعوی کرتی ہے اور چین نے ضرورت پڑنے پر بزور طاقت تائیوان کو اپنے ساتھ متحد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس میں تقریر کے دوران سپیکر نینسی پیلوسی نے کہا تھا کہ امریکہ کے لیے تائیوان کی حمایت کا اظہار کرنا اہم ہے۔واشنگٹن حکومت نے اب تک پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔ اگر وہ تائیوان جاتی ہیں تو 1997 کے بعد سے تائیوان کا دورہ کرنے والی وہ اعلی ترین امریکی رہنما ہوں گی۔امریکہ کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں تاہم اس نے تائیوان کے ساتھ قریبی غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن چین کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود تائیوان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت بھی جاری رکھے ہوئے۔ امریکہ کے مطابق یہ ہتھیار تائیوان کو اپنے دفاع کی خاطر مہیا کیے جا رہے ہیں۔امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتے ہیں تاکہ خطے میں امریکی عسکری طاقت کا اظہار کیا جا سکے۔صدر جو بائیڈن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کی مدد کو پہنچے گا۔ گزشتہ روز چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے لئے امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو فون پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا، آگ سے کھیلنے والے آخرکار جل جائیں گے۔چین بھی اپنی عسکری طاقت کے اظہار کے لئے آبنائے تائیوان میں جنگی بحری جہاز بھیجتا رہتا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران تائیوان کی فضائی حدود میں بھی تسلسل کے ساتھ نگرانی کرنے والے اور جنگی جہاز بھیجے جانے کے واقعات میں بھی تواتر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔یہاں اب اہم نکتہ یہ ہے کہ چین کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ یوکرین کے معاملے میں امریکہ اور اس کے اتحادی زبانی کلامی بیانات سے آگے نہیں بڑھے اور انہوں نے یوکرین کو جنگ کیلئے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح تائیوان کو بھی اگر چہ امریکہ ورغلا رہا ہے تاہم چینی حملے کی صورت میں امریکہ مشکل ہے کہ چین کے مقابلے میں اتر آئے۔