پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اتفاق رائے (معاہدے) ہونے کے باوجود قرض کی باضابطہ منظوری و ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر شدید دباؤ برقرار ہے‘ درآمدات کے لئے قومی خزانے میں زرمبادلہ (ڈالر) نہیں رہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے جاری ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بات چیت جون میں ختم ہوئی جس کے بعد عملے کی سطح (سٹاف لیول) کے معاہدے کا باقاعدہ اعلان پندرہ جولائی کو کیا گیا عموماً سٹاف لیول کے معاہدے کے بعد ’آئی ایم ایف‘ کا منتظم شعبہ (بورڈ) قرض کی منظوری دیدتا ہے جو ایک رسمی اور عمومی سی بات ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا اور اِس کے انعقاد کی تاریخیں بھی تبدیل کی جا رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بورڈ کا آئندہ اجلاس تین سے چھ ہفتوں میں متوقع ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ سازوں کو پاکستان کی معاشی مشکلات سے کوئی غرض نہیں نہ ہی پاکستان کے عوام سے ہمدری ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرض کی قسط جاری کرنے میں بے حسی پر مبنی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔’آئی ایم ایف‘ کے رویئے میں تبدیلی کی ایک وجہ ’سری لنکا‘ بھی ہے جہاں حسب خواہش معاشی اصلاحات کی ناکامیوں کے بعد آئی ایم ایف نے یقینا اپنی حکمت عملیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہوگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے ہنگامی اجلاس‘ جس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں لیکن اِس میں سری لنکا کا اور اِس جیسی دیگر معیشتوں بشمول پاکستان کا جائزہ لیا گیا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف زیادہ کچھ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے‘ جس میں عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف میں روپے کی قدر نہایت ہی بنیادی ہدف ہے۔
آئی ایم ایف 1.7 ارب ڈالر کی قسط میں جتنی تاخیر کرے گا روپے کی قدر پر دباؤ اُسی قدر بڑھے گا۔ اگر عملے کی سطح کے معاہدے کے بعد پاکستان کو قرض کی قسط جلد فراہم کر دی جاتی تو روپے کی قدر مستحکم ہو جاتی۔ اِس صورتحال میں عالمی بینک اورایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض ملنے کے بعد وہ پاکستان کی مدد کریں گے لیکن چونکہ آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر ہوئی ہے اِس لئے پاکستان کے پاس زرمبادلہ کی شدید کمی ہے اور اگر زیادہ باریکی سے دیکھا جائے تو درحقیقت قرض کی قسط ادا کرنے میں تاخیر ’آئی ایم ایف‘ کے پس پردہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے پاکستان کو مزید گھٹنے ٹیکنے کی ایک انجینئرڈ کوشش ہے‘ جو قطعی مناسب طرزعمل نہیں ہے۔ ایسے میں اگر ہم اپنے تمام غیرترقیاتی اخراجات بالخصوص برآمدات کم کرتے ہوئے دستیاب قومی وسائل کو ترقی دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عالمی طاقتیں خود رجوع کریں گی۔
پاکستان کے لئے صرف قرض کا حصول ہی نہیں بلکہ قرض (اصل زر) کی واپسی اور اُس پر سود کی ادائیگی بھی ایک مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے وقتی راحت زیادہ دیرپا و کارآمد نہیں ہے۔ جیسے جیسے قرض لیا جائے گا‘ قرض کی اقساط اور سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی بڑھتا چلا جائے گا اور وسائل کی کمی سے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا ”مارک اپ“ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دوست ممالک جو ہمیں اربوں ڈالر کی گرانٹ دیتے تھے اب وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کردہ رقم پر کمرشل مارک اپ وصول کرتے ہیں۔ یہ اخراجات کم کرنے کا وقت ہے۔ طرزحکمرانی کے اخراجات جو مجموعی قومی آمدنی کے 23 فیصد سے زیادہ ہیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں و مراعات اگر تیس سے پچاس فیصد کمی نہیں کی جاتی تو معاشی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔