رواں سال بارشوں نے خوب جل تھل مچایا۔ ساری دھرتی پانی سے بھگو دی۔ بلکہ سیلابوں کی سرزمین بنا دی۔کے پی صوبے میں پانی کے شراٹوں نے وہ تھپیڑے ایجاد کردیئے کہ اس بہاؤ کی راہ میں جو آیا خواہ انسان تھا کہ گھر یا تو ملیا میٹ ہو گئے یا پھر اسی بے باک دھاروں کے ساتھ کہیں گمنام منزل کی اور جا نکلے۔اس بار تو جون جولائی موسم کے بدلاؤ کے کارن اپنی روٹین سے ہٹ کر ٹھنڈک برساتے رہے۔ اب ایک مہینہ اور ہے اور بات قابلِ غور ہے۔ شہر پشاور تو بارشوں کی خستہ حالی سے محفوظ رہا۔ وہ اودھم نہ مچا جو اسی صوبے کے دوسرے شہروں میں منعقد ہوا۔لیکن موسم کی خوشگواری نے طبیعت مائل رکھی۔بادلوں کے برسنے سے شہر کی رونقیں ویران ہیں۔دوسرے شہروں میں بھی یہی حال ہے۔ایک تو گرانی اور پھر ایک سرگرانی ہے۔شہریوں کے موڈ آف رہتے ہیں۔چڑچڑا پن اپنے عروج پر ہے۔مزاجوں کے بگڑنے کے کھیل کھل کر کھیلے جا رہے ہیں۔روٹی پانی کا بندوبست کریں یا گاڑیوں میں پٹرول ڈالیں۔
جاؤ اورآؤ تو پٹرول پمپ کی یاترا کرنا ہوتی ہے۔ایک پٹرول کی گرانی ہی ہماری زندگی کی شیرینی میں کڑواہٹ بھرنے کے لئے کافی ہے۔زندگی کا مزہ پھیکا ہونے لگا ہے۔ اس پر بارشوں کی وجہ سے کاروبار کی تباہ حالی کی داستان کو بازاروں میں چپ کا شور اپنی سی زبان میں سنانے لگا ہے۔بجٹ اتنا کم پڑ گیا ہے کہ اب ہفتہ اتوار اور ساتھ جمعہ کی چھٹی پر بھی لے دے ہورہی ہے۔ملک معاشی مشکلات کی زد میں بھی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہے۔جاپان والے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اتنی بارشیں ہوتیں تو ہم اس سے خوب بجلی بناکر جمع کرتے۔کمال یہ ہے کہ انسان ہے اور کسی حال میں اس کو قرار نہیں ہے۔ جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم اجتماعی دعائیں کرتے ہیں کہ ابر کھل کر برسے۔ جیسے ان دنوں تباہ کاریوں کی فلم چل رہی ہے۔ اس کے بعدہم پھر سے اپیل کرتے ہیں کہ سب دعا کریں بارش رک جائے۔
خیر یہ تو ارضیاتی تبدیلیاں ہیں۔مگر جغرافیہ اور موسم کی تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے اس کو معمول کی فطری تبدیلی گردانتے ہیں۔کیونکہ صرف ہمارے ہاں تو یہ جل تھل نہیں دوسرے ملکوں میں بھی یہی کاروائی ہے۔اب برطانیہ میں پچھلے پندرہ واڑے وہ گرمی پڑی کہ جو72 برس پہلے پڑی تھی۔وہاں ہنگامی صورت حال نافذ ہوگئی۔حالانکہ وہ ملک ٹھنڈے علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔جہاں سال کے بارہ ماہ بادل چھائے رہتے ہیں۔وہاں اگر سورج نکلے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں۔مگرہمارے ہاں گرمی میں سورج بادلوں کے پیچھے روپوش ہو تو سرخوشی کی ایک کیفیت ہوتی ہے۔یہ سن باتھ کا تصور ہمارا تو نہیں یہ وہیں کی سرزمین کا رواج ہے کہ جب سورج بادلوں کی اوٹ سے تھوڑی دیر کو نکلے تو لوگ مارے خوشی کے اچھل پڑتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ سورج گھنٹہ بھر چمکنے کے بعد بادلوں میں پھر سے غائب ہو جائے وہ دوڑ کر سمندر کے ساحل پر سن باتھ کرتے ہیں۔مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔
ہم اگر خلافِ معمول کی اس برسات کے موسم میں سردریاب کے کنارے سن باتھ کریں تو لوگ ہم پرہنسیں۔موسم کی یہ تبدیلیاں سب گلوبل وارمنگ کے ساتھ لنک کرتی ہیں۔کہتے تھے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔جس کی وجہ سے اوپری علاقوں میں گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ برف کے بڑے تودے پگھل کر سیلاب لا سکتے ہیں۔مگر وہ کیا پگھلیں خود بادل جوں برف کے باٹ ہوں اور کھلے عام دھوپ میں رکھے ہوں پگھل گئے ہیں۔مگر گلیشئر والی وہ تھریٹ ابھی موجود ہے۔دوسری طرف زمین کے کلی درجہ حرارت میں اضافہ کی جو پیش گوئی ہے اس کے ہوتے کبھی دل میں یہ وسوسہ آنکلتا ہے کہ کہیں ہمارا سیارہ زمین گرمی کے لحاظ سے تبدیل ہو کر مریخ کی شکل نہ اختیار کرلے۔زمین پر کھڑے ہوکر اوپن ایئر میں رات کے وقت دیکھیں تو آسمان پر سب سے سرخ سیارہ جو نظر آتا ہے وہ مریخ ہے۔مگرہم نے توامید کی کرنیں دامنِ دل میں چن رکھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ موسموں کے بدلنے کے ساتھ اب انسانوں کو بھی اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہوگا اور وقت کی مناسبت سے بدلنا ہوگا۔