بظاہر مستقبل قریب میں مشرق وسطی میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا اور چین کا بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا چین امریکہ کا خلا جلد پر کرسکے گا؟امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطی کے دورے پر آنے سے پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ہمیں یہاں چین کو مقابلے میں ہرانے کیلئے خود کو بہترین ممکن پوزیشن پر رکھنا ہوگا۔مشرق وسطی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خطہ ممکنہ طور پر امریکہ چین مقابلے کا مرکز ہوگا اور انہیں خدشہ ہے چین یہاں بھی جلد امریکہ پر حاوی ہو جائے گا۔خطے میں چین کے مستقل اور بھرپور قیام کے ارادے اور امریکہ کی اس علاقے کو اپنے عالمی سلامتی چھتری تلے رکھنے کی خواہش کے پیش نظر بظاہر یہاں چین امریکہ کشمکش ناگزیر دکھائی دے رہی ہے۔تاہم یہ کشمکش تیل کے میدان میں ہی نہیں ہوگی بلکہ جمہوریت، انسانی حقوق اور اقلیتوں بارے امریکی اور چینی موقف کی ترویج کا بھی مقابلہ ہو گا۔
سعودی عرب اس پر خوش ہے کہ چین دوسرے ممالک کے نظام پر تنقید نہیں کرتا جب کہ امریکہ اکثر خود کو چھوڑ کردوسرے ممالک پرانسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کرتا رہتا ہے۔چین کی کامیابی یہ ہے کہ امریکہ کے برعکس اس نے خطے میں متوازن خادجہ پالیسی اپنائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطے کے ممالک کی باہمی کشکمش میں فریق نہیں بنے گا بلکہ ایسی صورت حال میں ثالث کا کردار ادا کرسکے گا۔ اس کے برعکس امریکہ کی خطے میں خارجہ پالیسی اسرائیل نوازی پر مبنی ہے اور وہ خطے کی سیاست میں ایک فریق ہے جس نے اس کی مذاکرات اور مصالحت کاری کی صلاحیت مشکل بنا دی ہے۔امکان ہے کہ چین ایران اور سعودی عرب کے ساتھ باہمی لین دین امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی ین سے کرنے جا رہا ہے۔ اس سے مشرق وسطی چین کے مزید قریب اور امریکہ سے دور ہوجائے گا۔ ین کے ذریعے تجارت سے چین اور سعودی عرب و ایران سب کو فائدہ ہوگا۔
چین مستقبل میں کرنسی کی قدر میں ممکنہ کمی اور پابندیوں کے اثرات سے محفوظ ہوگا جب کہ سعودی عرب دکھا دے گا کہ اسے اپنے ایک بڑے تجارتی ساتھی چین کے خدشات اور مفادات کا احساس ہے۔ ایران کو بھی روس اور چین کے ساتھ ین کے ذریعے تجارت سے پابندیوں کے منفی اثرات سے بچنے کا موقع ملے گا۔واضح رہے اس سال مارچ میں سعودی عرب نے مبینہ طور پر ڈالر کی جگہ ین کے ذریعے چین کو تیل فروخت کرنے پر غور شروع کیا تھا۔ یاد رہے سعودی عرب خام تیل کا چین کیلئے سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے جس نے چین کو پچھلے سال اٹھاسی ملین ٹن خام تیل برآمد کیا۔ ایران کے ساتھ بھی چین نے پچیس برسوں پر محیط پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔سوال یہ ہے کیا چین مستقبل میں بھی خطے کے ممالک کی باہمی کشمکش میں غیر جانب دار رہ پائے گا اور خود کو یہاں عسکری مداخلت سے دور رکھ سکے گا یا نہیں۔ خطے میں زیادہ سرمایہ کاری کا مطلب زیادہ مفادات ہیں جن حصول کے لئے امن و استحکام چاہئے۔
کسی بھی افراتفری اور خطرے کی صورت میں ان کی حفاظت چین کی مجبوری ہوگی۔ یعنی ممکن ہے کہ چین عرب خطے میں عسکری موجودگی پر مجبور ہوجائے۔تاہم کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خطے میں امریکہ چین کشمکش میں چین کی ممکنہ برتری مبالغہ آرائی ہے اور چین امریکہ دونوں کو خطے میں امریکی موجودگی سے فائدہ ہوا ہے۔ خطے میں چین کی تجارت اور مستقبل میں زیادہ سرمایہ کاری کیلئے امن و استحکام بنیادی ضرورت ہے جس کیلئے امریکہ کوشاں رہا ہے۔ پھر عرب ممالک چین کو دوست بنائیں تو لازمی نہیں امریکہ، جو ان کا طویل حلیف رہا ہے، کو اپنا حریف سمجھیں۔ امریکہ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔ اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں جو بائیڈن نے سعودی ولی عہد محمد سے کہا کہ آپ تیل کی قیمتیں کم کرنے کیلئے پیداوار بڑھائیں ورنہ پھر اپنے تین مہینے کے محفوظ ذخائر مارکیٹ میں لے آئیں مگر وہ نہ مانے۔
چنانچہ مارچ سے اب تک امریکہ خود اپنے سٹریٹجک ذخائر سے 125 ملین بیرل خام تیل مارکیٹ میں لانے پر مجبور ہوا۔ خزاں تک اندازہ ہے امریکہ 180 ملین بیرل تیل مارکیٹ میں لائے گا۔ اس سے قیمتیں کم ہوگئی ہیں مگر ان ذخائر کیلئے بھی اب خریداری کرنی ہوگی۔اپنے ابتدائی دور حکومت میں امریکی صدر نے سعودی عرب کوتنہا بنانے کا اعلان کیا تھا اور اسے نظر انداز کیے رکھا مگر پھر روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے جب تیل اور خوراک کی قیمتیں بلند ہوئیں تو اس نے مارچ میں سعودی ولی عہد کو تین بار فون کیا مگر اس نے نہیں اٹھایا۔ اس پر مجبورا ًانہیں دورہ کرنا پڑا جہاں گورنر مکہ نے استقبال کیا۔امریکی صدر نے واپسی پر کامیاب دورے کا دعویٰ کیا جسے غیر جانبدار مبصرین نے مسترد کیا ہے۔ اس دورے کے بعد سعودی ولی عہد کو صدر پیوٹن کی ایک لمبی کال آگئی جس نے امریکہ کی پریشا نیو ں میں اضافہ کردیا۔