رواں برس پولیو کا 14واں کیس رپورٹ ہونے کے ساتھ پاکستان ایک بار پھر اُن ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے جو دعوؤں کے باوجود پولیو کا خاتمہ نہیں کر سکے اور اِس کی ایک وجہ جہاں مانع پولیو ادویات کے خلاف غلط فہمیاں عام ہیں وہیں بیرونی امداد سے چلنے والے انسداد پولیو مہمات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی! پولیو کا تازہ ترین شکار شمالی وزیرستان میں ہوا ہے جہاں میران شاہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے‘سال دو ہزار بائیس کے دوران پولیو کے چودہ کیسز میں سے تیرہ کا تعلق ’شمالی وزیرستان (قبائلی ضلع) سے ہے اور اِن پولیو کیسیز میں سے نو کا تعلق ایک علاقے یعنی ”میر علی“ نامی ایک ہی یونین کونسل ہے جبکہ پولیو کا ایک کیس ”لکی مروت“ سے رپورٹ ہوا ہے اور مذکورہ دونوں علاقے خیبر پختونخوا میں ہیں۔ شمالی وزیرستان میں انسداد پولیو مہم کے مایوس کن نتائج سامنے آ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ مقامی لوگ اب بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریزاں ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ تمام چودہ متاثرین کی عمریں دو سال سے کم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلے چوبیس
مہینوں کے دوران انسداد پولیو کی جتنی بھی مہمات چلائی گئی ہیں اُن میں سے کوئی ایک بھی اِن متاثرہ خاندانوں تک نہیں پہنچی۔ پاکستان کے برعکس عالمی سطح پر ’انسداد پولیو مہم‘ انتہائی کامیاب رہی ہے اور کئی ممالک پولیو سے نجات پا چکے ہیں جبکہ بدقسمتی سے صرف افغانستان اور پاکستان (دو ہمسایہ) ممالک ہی باقی ہیں جہاں تاحال پولیو وائرس موجود ہے اور کئی ممالک اور ادارے انسداد پولیو کے لئے پاکستان و افغانستان کی مدد کر رہے ہیں لیکن جہاں پولیو سے نمٹنے میں خاطرخواہ دلچسپی ہی نہ پائی جاتی ہو وہاں مالی وسائل بھی کارآمد نہیں رہتے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افغانستان میں رواں سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ رواں برس (دو ہزاربائیس) کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں بھی پولیو کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا جس سے امید تھی کہ دوہزاربائیس کے اختتام پر پاکستان پولیو خاتمے کا ہدف حاصل کر لے گا اور ”پولیو فری“ ملک کا درجہ پائے گا لیکن پولیو ٹیموں کی مسلسل کوششیں شاید سست روی کا شکار رہیں۔ سال دوہزاربائیس کی دوسری سہ ماہی نے انسداد پولیو سے متعلق تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور تین مہینوں کے اندر حالات بدل کر رکھ دیئے گئے۔ اپریل سے جون تک اور جولائی کے آخری ہفتے میں چودہ کیسز یکے بعد دیگرے سامنے آنے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان پولیو کا شکار ملک ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو پاکستان سے عالمی سفر کرنے والوں پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ فی الوقت پاکستان سے سفر کرنے والوں کو سفری دستاویزات کے ہمراہ اضافی ’پولیو ٹیسٹ‘ کی سند (سرٹیفکیٹ) بھی ہمراہ لیجانا پڑتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے گرین پاسپورٹ کواِس قسم کے واقعات غیرمقبول بنا دیتے ہیں اگرچہ افغانستان اور پاکستان کے حالات مختلف ہیں لیکن افغانستان سے سرحد پار کر کے آنے والوں کی بڑی تعداد بھی
پولیو پھیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان کو جہاں اپنے ہاں پولیو کے مراکز پر توجہ دینی ہے وہیں اِس سلسلے میں افغانستان کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ پاک افغان راہداریوں بین الاقوامی سرحدوں (ٹرانزٹ پوائنٹس) پر دس سال سے کم عمر بچوں کو مانع پولیو ٹیکے اور قطرے پلانا ضروری ہیں۔ مایوسی کی بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان قریب پندرہ مہینے ”پولیو فری“ رہا لیکن پھر دوبارہ پولیو کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔ ویکسین سے انکار کے معاملے کو صرف ڈرائیو شروع کرنے اور نتائج کا انتظار کرنے سے زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ یہ صرف چند خاندان نہیں ہیں جو مانع پولیو ادویات سے انکار کر رہے ہیں لیکن چونکہ یہ متعدی بیماری ہے‘ اس لئے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع بھی خطرے میں ہیں خاص طور پر بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ اور ٹانک جو وزیرستان سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ ماہرین خیبرپختونخوا کے اِن جنوبی اضلاع میں پہلے ہی پولیو وائرس کی موجودگی کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ پولیو کے قطرے پلانے والے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں‘ جسے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر پولیو مزید پھیلتا ہے‘ تو اِنسداد پولیو کے سلسلے میں پاکستان کی برسوں کی محنت اور اربوں کے اخراجات ضائع ہو جائیں گے۔