تاریخ کی کتاب سے ایک ورق

پشاور سے سوات جاتے ہوئے چکدرہ کے قریب آپ کو ایک پہاڑی پر ایک قلعہ نما پکٹ نظر آ تی ہے جو چرچل پکٹ کے نام سے مشہور ہے۔ جی ہاں سابق برطانوی وزیر اعظم سر و نسٹن چرچل کے نام سے یہ پکٹ منسوب کی گئی ہے اور اس کی بھی ایک اپنی علیحدہ تاریخ ہے۔ہوا یوں تھا کہ فرنگیوں کے دور حکومت میں 1895کے لگ بھگ چرچل بطور ایک صحافی برٹش آ رمی کے ساتھ باجوڑ مہمند وغیرہ کے علاقوں میں آئے تھے جس مقام پر چرچل پکٹ قائم ہے یہاں پر مقامی قبائل اور فرنگیوں کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں چرچل نے بھی حصہ لیا تھا‘ چرچل اس زمانے میں یہاں سے روزانہ لندن سے نکلنے والے مشہور روزنامے دی ڈیلی ٹیلیگراف کیلئے مکتوب بھیجا کرتے جس میں اس علاقے میں فرنگیوں کی فوجی پیش قدمی کا ذکرہوتا اس مکتوب کا انہیں فی کالم اس وقت کی کرنسی کے حساب سے وہ اخبار 3 پاؤنڈ ادا کرتا جو ان کی والدہ ان کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کرتی تھیں جب چرچل واپس انگلستان گئے تو اس اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم جمع ہو چکی تھی جس کوخرچ کر کے چرچل نے پھر سٹوری آ ف مالاکنڈ فیلڈ فورس کے نام سے ایک کتاب چھاپی جو دنیا بھر خصوصا ًانگلستان میں بڑی مشہور ہوئی‘جب 1961میں ملکہ الزبتھ پاکستان کے دورے پر آئی تھی تو انہوں نے اس پکٹ کا دورہ کیا تھا ان کیلئے خصوصی طور پر پکٹ کے اندر ٹیلی فون کی ہاٹ لائن کا بندوبست کیا گیا تھا اس زمانے میں موبائل فون تھوڑی ہوا کرتے تھے جس کے ذریعہ انہوں نے چرچل سے بات کی وہ ان دنوں لندن میں ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے تھے‘ملکہ نے ان سے کہا کہ وہ مالاکنڈ میں اس پکٹ سے بول رہی ہیں کہ جس کے لئے کبھی انہوں نے جنگ کی تھی‘ سٹوری آ ف مالا کنڈ فیلڈ فورس کتاب کی اشاعت نے چرچل کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے اور اس کے بعد انہوں نے واپس مڑ کر نہ دیکھا وہ میدان سیاست میں بھی کود پڑے اور پھر ایک ایسا زمانہ بھی آ یا کہ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ہٹلر کے خلاف جنگ میں قیادت کی اور اتحادی افواج کو کامیابی سے ہم کنار کروایا‘ چرچل نہ صرف یہ کہ ایک نہایت زیرک عالمی سطح کے لیڈر تھے وہ انگریزی زبان کے بہت اچھے لکھاری بھی تھے اور انہوں نے دوسری جنگ عظیم پر جو کتاب لکھی اس پر انہیں لٹریچر کی مد میں نوبل ایوارڈ دیا گیا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب وہ برطانوی فوج کے ساتھ باجوڑ میں تعینات تھے تو ان کے والد نے ان کو ایڈورڈ گبن کی لکھی ہوئی کتاب The decline and fall of Roman Empire یہ کہہ کر بجھوائی کہ چونکہ باجوڑ میں لمبے لمبے دن ہوتے ہیں تم اس کتاب کو پڑھا کرو‘چرچل نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے درست انگریزی لکھنا ایڈ ورڈ گبن کی کتاب The decline and fall of Roman Empire پڑھ کر سیکھا ہے‘ اب ماضی سے نکل کر ذرا موجودہ منظر نامے کا تذکرہ ہوجائے جہاں امریکہ اور چین میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اورتائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔امریکہ نے متنبہ کیا ہے کہ چین نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کا جواب فوجی اشتعال انگیزی سے دے سکتا ہے‘ ادھر چین نے کہا ہے کہ اگر کانگریس کی سپیکر نے دورہ کیا تو اس کی فوج یونہی خاموش نہیں بیٹھے رہے گی‘امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی اپنے چار روزہ دورہ ایشیا کے پہلے مرحلے میں سنگا پور پہنچی ہیں تاہم ابھی بھی یہ واضح ہے نہیں ہے کہ آیا وہ تائیوان بھی جائیں گی یا نہیں، اس حوالے سے چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی جاری ہے‘ وائٹ ہاؤس نے چین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کے حوالے سے اپنی بیان بازی کو کم کر دے کیونکہ بیجنگ کے پاس کشیدگی بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے‘ وائٹ ہاؤس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بالآخر یہ فیصلہ پیلوسی کو کرنا ہے کہ آیا انہیں تائیوان کا سفر کرنا ہے یا نہیں‘اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاس اور امریکی وزارت خارجہ دونوں ہی نینسی پیلوسی کے اس وقت تائیوان کے دورے کے حق میں نہیں ہیں دوسری طرف چین نے اس دورے کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے جزیرے کے آس پاس اپنی فوجی موجودگی کو مزید بڑھا دیا ہے‘امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپیکر کو تائیوان کا دورہ کرنے کا حق حاصل ہے‘ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود مختار جزیرے کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور امریکہ تائیوان پر چین کی خود مختاری کو تسلیم کرتا رہے گا‘ انہوں نے کہا کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے‘ان امریکی بیانات سے قبل ہی چین نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ اگر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا، تو بیجنگ خاموش نہیں بیٹھے گا‘ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژا لیجیان نے کہا کہ اگر وہ دورہ کرنے پر اصرار کرتی ہے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے‘انہوں نے کہا، ہم کسی بھی صورت حال کیلئے پوری طرح سے تیار ہیں‘خبریں آرہی ہیں کہ چین کے جنگی طیارے چین اور تائیوان کو الگ کرنیوالی آبنائے تائیوان کی درمیانی لائن کے قریب کھڑے ہیں اور منگل کی صبح کئی فوجی جیٹ طیاروں نے لائن کے قریب پرواز بھی کی‘ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے بھی صورتحال کی نگرانی کیلئے اپنے طیارے روانہ کیے تھے‘ یعنی ایک طرح سے حالات کشیدہ ہیں‘اس سب صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ عالمی امن سے کھیل رہا ہے اور ایک طرف اس نے یوکرین کو روس کے خلاف ورغلایا اور اس کا نتیجہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں سامنے آیا اب تائیوان کو چین کے خلاف اُبھار رہا ہے جس کا نتیجہ چین کی طرف سے تائیوان کو زبردستی اپنے ساتھ ضم کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔