بائیوٹیکنالوجی جسے عرف عام میں ’بائیو ٹیک‘ کہا جاتا ہے ایک ایسا حیاتیاتی عمل ہے جس میں امراض کے علاج معالجے سے لیکر فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر ہر چند ہفتوں بعد نت نئے بائیوٹیک رجحانات سامنے آتے ہیں اور اِس شعبے سے متعلق ماہرین کی سطح پر بحث و مباحثے مسلسل عمل ہے‘ خوش آئند یہ ہے کہ پاکستان میں بائیوٹیک کے شعبے میں ترقی کیلئے سازگار ماحول موجود ہے البتہ بائیو نینو ٹیکنالوجی یا اسی طرح کے دیگر تحقیقی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت سے متعلق دلیل یہ ہے کہ کسی بھی ملک کو ترقی کیلئے نت نئے علاج اور نت نئے آلات (ٹیکنالوجی) کی ضرورت ہوتی ہے‘ پاکستان کو درپیش صحت کی دیکھ بھال جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے بائیوٹیکنالوجی کی دریافتیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں‘ کورونا وبا سے قبل جب حالات معمول پر تھے تو اُس وقت پاکستان کے بائیوٹیک شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری ہو رہی تھی لیکن کورونا وبا کے دوران اور اِس کے بعد جبکہ بائیوٹیک میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن مغربی ممالک اپنے ہاں ’بائیوٹیک‘ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں یا بائیوٹیک اداروں سے کورونا ویکسین خرید رہے ہیں اور اِس ترجیح کی وجہ سے پاکستان میں بائیوٹیک کا شعبہ متاثر ہوا ہے۔
پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں اور نہ ہی طلبہ اور تعلیمی سکالرز کی صلاحیت و استعداد کم ہے‘ سائنس کے شعبے میں پاکستان کے سائنسدان کسی بھی ملک سے زیادہ بہتر کارکردگی اور نئی دریافتوں کی صورت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں لیکن اِس ہدف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری اور سرکاری و نجی صنعتی شعبے کی سرپرستی درکار ہے‘ بائیوٹیک کیلئے صلاحیت‘ اہلیت‘ سرمایہ کاری اور صبر و حوصلے کے ساتھ تحقیق کے نتائج ظاہر ہونے کا انتظار کرنے کے عوامل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن جب بات پاکستان میں بائیوٹیک کی آتی ہے تو اِس صنعت میں نئی تحقیق کیلئے سرمایہ کاری‘ انفراسٹرکچر اور ترغیب کا فقدان پایا جاتا ہے‘ بائیو ٹیک تعلیم کے ادارے روایتی اداروں کی شکل اختیار کر گئے ہیں جبکہ پبلک سیکٹر میں فنڈنگ کی کمی اور صنعتی شعبے کا حجم معاشی مشکلات کے سبب کم ہونے کی وجہ سے برآمدات متاثر ہیں‘ پاکستان کے فیصلہ ساز اور کاروباری طبقات جن میں صنعتیں بھی شامل ہیں اِس بات کو زیادہ منافع بخش اور بظاہر آسان عمل سمجھتی ہیں کہ بائیوٹیک اشیا درآمد کر لی جائیں اور ایک عرصے سے یہی ہو رہا ہے‘ کسی بھی ملک میں اگر تعلیمی و تحقیقی عمل صنعتی شعبے سے مربوط و مسلسل نہیں ہوتا اُس وقت تک تحقیق جیسے صبرآزما عمل میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے دلچسپی اور توجہ سامنے نہیں آتی۔
صنعتوں کو تعلیمی و تحقیقی اداروں سے مربوط کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور تحقیقی تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان دوطرفہ تعلق کی بحالی اور عدم اعتماد کے خاتمے کیلئے حکمت عملی وضع ہونی چاہئے‘ بائیوٹیک انڈسٹری کیلئے طویل مدتی ویژن کی ضرورت ہے جس میں دریافت‘ تحقیق اور مقامی تحقیق اور وسائل سے مصنوعات تیار کی جائیں‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ”وینچر کیپیٹل سیکٹر“ سے جڑے بائیوٹیک شعبے کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی‘ پاکستان کی بائیوٹیک میں بین الاقوامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ عالمی سطح پر تحقیق کی سرپرستی کرنے کیلئے عطیات بھی کم ہوئے ہیں اور اِس کی ایک وجہ غیر فعال انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس اور کمزور ریگولیٹری سسٹم ہے‘اِس تناظر میں دیکھا جائے تو ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP)“ کا خاصا کلیدی کردار ہے۔