اس سے پہلے کہ میں کمرے میں جاتا وہاں مسکراہٹوں اور قہقہوں کی آواز تھی۔ مجھے دلچسپی ہوئی‘میں نے دروازہ کھولا تو ٹی وی کی بڑی سکرین پر مزاحیہ ڈرامہ لگاہوا تھا۔ یہ ڈرامہ روز دو تین بار لگتا ہے‘بلکہ اتوار ہو تو یہ کامیڈی ڈرامہ زیادہ مرتبہ دکھاتے ہیں‘لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔ایک دن تو میں اُکتا سا گیا‘یہ روز ایک ہی ڈرامہ کے مختلف پیس لگاتے ہیں‘مگر جب اپنے ارد گرد غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ٹی وی پر ایک نہیں کئی ڈرامے لگانے چاہئیں جو ہنسنے ہنسانے والے ہوں‘یہ تفریح آج کے اس معاشرے میں بہت ضروری ہے‘آج کا انسان بہت دکھی ہے‘ اس دردو غم کی ایک نہیں درجنوں وجوہات ہیں‘سو ایسے میں مسکرانے کے بہانے ہنسی کا موقع مل جائے تو لطیفہ وغیرہ سن کر ہنسنا کیا چاہئے بلکہ ہنسی تو خود بخو آ جاتی ہے‘اب بندہ کتنا ہی غمگین کیوں نہ ہو مگر سال بھر کے بچے کو ہنستا ہوا دیکھ کر ہر بندہ اگر نہ ہنسے تو بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرور نمایاں ہوتی ہے۔
ڈرامہ لکھنے لکھانے والے اور ڈرامہ کی پیش کاری سے منسلک احباب جانتے ہیں کہ کسی کو خواہ ناظرین میں سے ہو یا قارئین میں ہو ہنسانا بہت مشکل کام ہے‘جبکہ اس کے مقابلے میں کسی کو رونے پر مجبور کر دینا آسان ہے‘کسی زبان کے ادب میں مزاح کا پختہ ہونا گویا اس زبان کی بلوغت کی نشانی ہے۔بلکہ خوبصورت یادیں ہوں تو بندہ سال پہلے والی کسی کی بات کو یاد کرکے تنہائی میں ہنستا ہے۔ہمارے دوست ہیں بینک مینیجر ہیں۔مگر پاس بیٹھو تو ہنسنے ہنسانے کی اتنی باتیں کرتے ہیں کہ میرے تو ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑجاتے ہیں۔حالانکہ وہ سیریس ہوتے ہیں۔جیسے ٹی وی پر ننھا اور فلموں میں رنگیلاخود نہیں ہنستے۔کیونکہ وہ اپنی باتوں کو ہنسی والی باتیں سمجھتے ہی نہیں۔ ٹی وی میں کردار ایکٹنگ کر کے ہنساتے ہیں مگر یہ تو ہنسانے کیساتھ کسی کردار کی نقل اتارتے ہوئے اس حد تک اداکاری کرتے ہیں کہ میں کہتا ہو ں جاوید اقبال صاحب آپ کواس نوکری سے زیادہ ٹی وی میں اداکار ہونا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ٹی وی میں کام کرنیوالوں کو اتنا محنتانہ ملتا نہیں کہ جتنا آپ یہاں افسری کر کے ہر ماہ کماتے ہوں گے‘اس حد تک کہ میں تو ان کو دیکھتے ہی ہنس پڑتا ہوں۔
دونوں جب کسی پلے میں یا فلم میں پہلی بار سیریس ہو کربھی سکرین پر نظر آ جائیں تو دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے‘ بلکہ شعر ہے کہ ”مسکراہٹ ہے حسن کا زیور‘ مسکرانا نہ بھول جایا کریں“کسی ہر بندہ کسی نہ کسی دکھ کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے‘جب کوئی غمزدہ سین دیکھتا ہے یا کوئی سٹوری سنتا ہے اگر رونا نہ آئے تو آنکھیں ضرور بھیگ جاتی ہیں‘کیونکہ غم کے واقعات ہر کسی پر گزرے ہوتے ہیں۔کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ٹریجیڈی پیش آئی ہوتی ہے۔یہ تفریح کیا کم ہے کہ ٹی وی کے پُتلوں سے جنگ نہیں ہوسکتی‘ وہ جو مذاق کرتے رہیں آپ دیکھتے رہ جائیں مگر آپ کچھ نہ کہہ سکیں گے‘یا تو خودکلامی کریں یا اس کی دوسری صورت مزاحیہ ڈرامے دیکھیں۔پہلے ٹی وی پر ففٹی ففٹی نام کا ڈرامہ لگا کرتا تھا‘پھر ا س کے بعد اور ڈرامے آئے مثلاًسونا چاندی لے لیں بلکہ نہ ہی لیں تو بہتر ہے کیونکہ آپ خرید نہیں پائیں گے اوریونہی دل اُداس ہو جائے گا اور الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
آپ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگیں گے‘سو پراناڈرامہ سونا چاندی دیکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ ماضی کا ڈرامہ فٹافٹ دیکھیں‘جلدی نہیں یہ ا س ڈرامہ کا نام ہے‘اب تو فٹافٹ کے بعد ان گنت مزاحیہ ڈرامے لگتے ہیں‘ایک سے ایک بڑھ کر مگر میں نے جس ڈرامے کی بات شروع میں کی ہے وہ تو روز تین بار لگتا ہے‘اس کی ہزاروں قسطیں ہیں‘اس کے کردار تو ایسے ہیں کہ جس گھر میں یہ ڈرامہ زیادہ دیکھا جاتا ہے وہاں تو یہ کردار اپنے نقلی ناموں کے ساتھ گھر کے اصلی افراد نظر آتے ہیں‘اگر ڈرامہ کے وقت آپ مصروف ہوں تو وہی قسط موبائل میں دیکھ لیں‘ تفریح تو انسان کیلئے بہت ضروری ہے مگر آج کے دور میں کچھ زیادہ ہی ضروری ہوگئی ہے۔