سیاسی استحکام‘ابھی  بہت سفر باقی ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے فیصلہ دیا ہے کہ تحریک انصاف نے متعدد غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں سے رقومات (چندہ) وصول کیا اور چونکہ اِس چندے کی تفصیلات سے الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا جو حسب قواعد سالانہ مالیاتی معلومات فراہم کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اِس لئے ”پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء (پی پی او 2002ء) کے تحت تحریک انصاف کے خلاف قانونی کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ اِس آٹھ سال پرانے مقدمے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق کسی ایک جماعت کے چندے کے تفصیلات کو بے ضابطہ قرار د دینے کے بعد اب دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اِس آپریٹو قانون سابقہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962ء اور موجودہ الیکشنز ایکٹ 2017ء کے تحت جواب دینا ہوگا کہ کیا اُنہوں نے بیرون ملک سے چندہ وصول کیا ہے یا نہیں۔ مذکورہ دونوں قوانین کی رو سے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے کہ وہ بیرون ملک سے چندہ (غیر ملکی فنڈنگ) وصول نہیں کر سکتیں لیکن ہر سیاسی جماعت نے بیرون ملک شاخیں  یاچیپٹرز بنا رکھے ہیں ؎اور اِن شاخوں کے ذریعے پارٹی چندے کی مد میں خطیر رقم آتی ہے۔

 اِسی قسم کی مشکل صورتحال  تمام سیاسی جماعتوں کو درپیش ہے۔ مذکورہ قانون میں کہا گیا ہے کہ ”کسی بھی غیر ملکی حکومت‘ کثیر القومی یا مقامی طور پر شامل عوامی یا نجی کمپنی‘ فرم‘ تجارتی یا پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کی طرف سے براہ راست یا بالواسطہ کسی بھی قسم کا مالیت کا مالی تعاون ممنوع ہو گا اور فریقین صرف افراد سے عطیات قبول کریں۔“ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”مذکورہ آرڈر (قانون) کے تحت ممنوعہ شراکت یا عطیہ ریاست کے حق میں ضبط کر لیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17(3)کے مطابق ”ہر سیاسی جماعت پابند ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنے مالی وسائل کے ذرائع کا حساب دے۔“ مذکورہ قانون ہر پارٹی کو پابند بناتا ہے کہ وہ پارٹی لیڈر کی جانب سے دی گئی سند (سرٹیفکیٹ) کے ساتھ مالیاتی تفصیلات (اکاؤنٹس) کا سالانہ کنسولیڈیٹڈ بیان (اسٹیٹمنٹ) دستاویزی شکل میں جمع کرائے۔ مذکورہ قانون کے تحت اگر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کسی سیاسی جماعت کو غیر ملکی ذرائع سے فنڈنگ ملنا ثابت ہوا تو ایسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے گا اور اس کی رکنیت رکھنے والے عوامی نمائندے بھی نااہل قرار دے دیئے جائیں گے اب جبکہ ’ای سی پی‘ نے اعلان کیا ہے کہ پی ٹی آئی غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں سے غیر قانونی فنڈز حاصل کئے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ سب سے پہلے تو ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی فنڈنگ ضبط کر لی جائے گی۔

 اِس سلسلے میں ای سی پی نے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرے کہ ریاست غیر قانونی غیر ملکی فنڈز کیوں ضبط نہ کرے۔ اسکے بعد جو مراحل آتے ہیں  ان میں نہ صرف پارٹی تحلیل کی جا سکتی ہے  بلکہ پارٹی کے اراکین کو ان کی بقیہ مدت کے لئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے بھی نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور اِس طرح نااہل ہونے والے اراکین کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں ہوگی تاہم یہ نااہلی زیادہ سے زیادہ چار سال تک کارگر رہے گی جس کے بعد پارٹی بحال ہو سکتی ہے تاہم پارٹی کو تحلیل کرنے کا عمل الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا اختیار ہے جسے ’ای سی پی‘ کے حکم پر پندرہ روز کے اندر سرکاری گزٹ میں اعلامیہ (نوٹیفکیشن) جاری کرنا ہے اور اس اعلامیے کے لئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس وفاقی حکومت کے اعلامیے کو برقرار رکھنے کا حتمی اختیار ہے جس کی بنیاد پر تحلیل اور نااہلی کا عمل مکمل ہوگا۔ آٹھ سال سماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن جس نتیجے پر پہنچا ہے اور جس وقت میں تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ سامنے آیا ہے اور سے ملک کو درپیش سیاسی بحران ختم ہونے  کے آثار کم ہونے لگے ہیں اور پاکستان کو جس سیاسی استحکام کی ضرورت اُس کے لئے لگتا یہی ہے کہ ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔