صاحبان یہ کوئی اطلاعِ عام نہیں اور نہ ہی درخواست میں حسنِ طلب ہے۔بس ایک دکھ بھری کہانی ہے۔پھر کیوں نہ ہوکہ بڑی عید کے بعد مہینہ ہونے آیا ہے او رہم نے گھر میں روزانہ گوشت سے اپنی ہی خاطر تواضع خود کی ہے۔مگر اب فریج میں گوشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ جو تھا ہم چٹ کر گئے ہیں۔فریج خالی اور سنسان پڑا ہے۔سوچتے ہیں اس فضول کی بجلی کی کھپت کو بند کر دیں۔ کیونکہ پہلے تو فریج لبالب بھرا تھا۔ گوشت کی ڈھیریاں پلاسٹک چڑھے شاپروں سے نکال نکال کر مہینہ بھر کھاتے رہے۔کہیں تکے تو کہیں تکہ کڑاہی بغیر کسی دال اور سبزی کے اڑائے ہیں۔مگر اب جو فریج کو خالی دیکھ رہے ہیں تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔فریج میں صرف پانی کی بوتلیں پڑی ہیں۔پھر موسم بھی اچھا ہے اتنا ٹھنڈا پانی کون پیتا ہے۔فریزر میں اب تو جمے ہوئے گلیشئر ہیں۔جن کو فریج بند کر پگھلایا جا سکتا ہے۔جو گوشت ہمسایوں کے گھر رکھوائے تھے وہ بھی رفتہ رفتہ منگوا کر پکائے اور کھا پی لئے۔اب ہم غور فرما رہے ہیں کہ یہاں وہاں کہیں کسی گھر میں گوشت رکھوایا ہو تو منگوا لیں مگر یاداشت ساتھ نہیں دے رہی۔بلکہ ہمسایوں کے گھر تو ایک بار کا رکھوایا گوشت جب بھول کر دوسری بار منگوایا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ تو آپ کے ہاں سے بچہ آیاتھا اور لے گیا۔
ہم نے بہت پیاروں کے گھرجواب بھجوایا کہ ہمارا گوشت دے دیں۔مگر جواب ملا کہ وہ تو مہمان آئے اور ہم نے ان کی مہمانداری میں خرچ کردیا۔ ہم نے کہا بہت اچھا کیا۔ہمسایوں کا اتنا توحق بنتا ہے۔ مجھے یاد ہے پچھلے سالوں ہمارے فریج میں رکھوایا ہوا ہمسایوں کا گوشت ہم نے خود ہی کھا لیا۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ پرایا گوشت ہے۔اس لئے کہ گوشت کے بارے میں مالکان نے از خود پوچھا ہی نہ تھا۔ہم بھی بے فکر تھے کہ اپنا ہی گوشت ہے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔مگر جب ان کے ہاں سے مانگ ہوئی تو یہاں ہماری سٹی گم ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے امانت میں خیانت پر ہم لوگوں کی اچھی خاصی خبرلی۔ انھوں نے بھی اس لئے رکھا ہوگا کہ چلو اگر اپنے فریج سے ختم ہوگا تومنگوالیں گے۔پھر قصہ مختصر معافی تلافی کے بعد جا کر کہیں بات ختم ہوئی۔ پھر وہ دن اور آج کا دن انھوں نے ہمارے گھر کبھی گوشت نہیں رکھوایا۔ قصور تو ہمارا تھا کہ ہم چٹ کر گئے مگر اس لئے خود کو بے گناہ تصور کرتے ہیں کہ گھرکے سب سے چھوٹے کے ہاتھ میں دیا اور وہ ہمیں کہنا بھول گیا کہ یہ فلاں گھرسے فریج میں رکھوانے کو بھیجا گیا ہے۔
جس کی وجہ سے گھر والے یہی سمجھے کہ جس بچے نے دیا ان کے گھر سے ہمارا ڈبل حصہ آیا ہے۔ مگر گوشت تو فریج میں کیا ہوگا پہاڑوں میں خزانے بھی ہوں تو آخر ایک دن ختم ہو جاتے ہیں۔مگر صاحب دانتوں کو کچھ ایسی عادت پڑگئی ہے کہ جیسا بھی تھا گوشت تو گوشت ہوتا ہے سخت ہو تب بھی مزے لے کرکھایا ہے۔ہرچندکہ دانتو ں سے گوشت نکالنے کی تیلیاں جیب میں بھی رکھی تھیں۔اب آدھ کلو دال مسورلا کر رکھی ہے اور صبح سے ویسے کی ویسے پڑی ہے۔مگر دال کی طرف دل مائل نہیں ہوپا رہا۔لیکن ایک وقت فاقہ کیا تو خود ہی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔پھرسلینڈر پر سے پکتی ہوئی دال کی خوشبوماحول کو ہشکانا شروع ہو جائے گی۔ دالوں کی پڑیائیں پڑی ہوئیں ہیں مگر بیگم جی نے ذرا دور کر کے رکھ دی ہیں۔ آخر عید سے پہلے ہم کیا کھاتے تھے۔یہی دالیں اور سبزی۔پھر یہ کون سی سستی ہیں۔ ہاں ٹماٹر کی چٹنی بنا کر کھائیں گے۔کیونکہ خوراک میں تبدیلی بھی تو بہت ضروری ہے۔مگر کہتے ہیں کہ عادت قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔اب چونکہ گوشت خوری کی عادت پُر خوری کی حد تک بڑھ گئی ہے اس لئے یہ عادت جاتے جاتے جائے گی۔ یہ بھی کہا ہے کہ بندہ پہلے اپنی عادتیں بنا تا ہے پھر عادتیں خود اس کوبناتی ہیں ویسے دیکھا جائے تو گوشت خوری کی عادت کو ختم ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ عادت ابھی اتنی پرانی بھی تو نہیں۔