جنگ کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں

امریکہ نے ایمن الزواہری کو ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں۔ واشنگٹن کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت سے اپنے تعلقات درست کرنے کی کوشش اس لئے بھی کر رہا تھا کہ اسے امریکہ مخالف عسکریت پسند تنظیموں کو نکیل ڈالنے کیلے ان کا تعاون درکار تھا بہر حال امریکہ کی خارجہ پالیسی ایک عام آ دمی کی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ وہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ بظاہر اس میں نظر کچھ اور آ تا اور اندرون خانہ کچھ اور ہوتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ترجمان نے امریکہ پر الزام عائد کیاہے کہ یہ ڈرون حملہ دوحہ میں ان دو ممالک میں ہونے والے اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے جس میں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ادھر حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نے جس ڈھٹائی کے ساتھ چین کے علاقے تائیوان کا جو دورہ کیا ہے چینی حکومت اسے ایک چین اصول کی سنگین خلاف ورزی قرار دے رہی ہے اور چینی عوام میں اس دورے پر سخت شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اس دورے سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکہ خطے میں بد امنی کے درپے ہے،چینی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے وہ چین کا اندرونی معاملہ ہے جس میں امریکی مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین نے تائیوان کے قریبی سمندروں میں فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے تائیوان کے مشرقی ساحل سے کچھ دور چھ بیلسٹک میزائل فائر کئے ہیں۔نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے پر چین کی جانب سے شدید تنقید کے ساتھ ساتھ سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

 

واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے۔نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد اپنے ردعمل میں چین نے ضروری اور فوری پانچ روزہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا تھا۔یہ مشقیں دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک آبنائے تائیوان میں ہو رہی ہیں اور چونکہ چین نے ان مشقوں میں اصلی گولہ بارود کے استعمال کا اعلان کیا ہے، اس لیے اس نے بحری جہازوں اور پروازوں کو اس خطے سے دور رہنے کا کہا ہے۔چین نے ان مشقوں کے لیے تائیوان کے گرد چھ زون متعین کیے ہیں اور ان میں سے کچھ تو تائیوان کے 20 کلومیٹر تک کے فاصلے پر ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تقریبا 10 چینی بحری جہازوں نے مختصر مدت کے لیے آبنائے تائیوان میں میڈیئن لائن عبور کی۔ یہ وہ لکیر ہے جو اس آبنائے تائیوان کو تائیوان اور چینی سر زمین کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔تائیوان کے ایک عسکری ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تائیوان نے میڈیئن لائن کے قریب چینی فضائیہ کی سرگرمی پر نظر رکھنے کے لئے میزائل سسٹم نصب کر دئیے ہیں جبکہ اس کی بحریہ بھی چینی بحریہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔امریکی بحریہ نے کہا ہے کہ اس کا طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن سمندر کے ایسے خطے کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں تائیوان کے جنوب مشرقی پانی بھی شامل ہیں۔امریکی بحریہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ یو ایس ایس رونلڈ ریگن اور اس کا سٹرائیک گروپ بحیرہ فلپائن میں اپنی معمول کی گشت کے طور پر اپنے معمول کے اور طے شدہ کام کر رہے ہیں تاکہ ایک آزاد انڈو پیسفک خطہ یقینی بنایا جا سکے۔اس کے علاوہ چین نے تائیوان کے جنوب مغربی اور شمال مشرقی ساحلوں کے قریب کئی ڈونگ فینگ میزائل داغے ہیں۔

 

روئٹرز کے مطابق تائیوانی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ اس نے ان میزائلوں کے جواب میں اپنے دفاعی نظام فعال کر دئیے ہیں۔چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کہا ہے کہ اس نے عالمی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے آبنائے تائیوان میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسلحے کے ذریعے اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا۔ اس نے کہا کہ ان طے شدہ مشقوں کے ذریعے متوقع نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ شکر ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نے اپنا دورہ جلد ختم کر کے اپنے ملک کی راہ لی ورنہ غالب امکان یہ تھا کا کہ اس مداخلت سے امریکہ اور چین کے درمیان جنگ چھڑ سکتی تھی۔اس ضمن میں چین کے نائب وزیر خارجہ نے چین میں امریکی سفیر کو اگلے روز اپنے دفتر طلب کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ دورہ ایک چین کے اصول اور اس ضمن میں امریکہ اور چین کے مشترکہ اعلامیہ کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کی وجہ سے چین امریکا کے سیاسی تعلقات پر شدید برا اثر پڑا ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سے دنیا کے امن اور استحکام کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔دوسری طرف وطن عزیز میں اس وقت کورونا اور ڈینگی بیک وقت خطرہ ہیں جو فوری حفاظتی اقدامات کے متقاضی ہیں۔