پاکستان میں ہر سال ’مون سون‘ بارشوں کی کہانی ایک جیسی ہوتی ہے کہ یہ سیلاب ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جھل تھل ایک کر دیتے ہیں اور اِس سے جانی و مالی نقصانات معمول بن چکے ہیں۔ رواں برس (دوہزاربائیس) کے جاری مون سون میں ایک ہفتے کے دوران 140 ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کبھی بھی مون سون میں اس قدر وقت میں اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئی تھیں۔ سب سے زیادہ متاثر بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع کراچی ہوا ہے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی (اکنامک حب) جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہی کراچی پاکستان کا مالیاتی اور صنعتی دارالحکومت ہے۔ کراچی کی مقامی خام آمدنی 164 ارب ڈالر ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کل وصولیوں کا تقریباً نصف کراچی سے وصول ہوتا ہے۔ اگر کراچی کی معاشی سرگرمیاں سیلاب سے متاثر ہوں تو اِس سے قومی آمدنی میں کمی کی صورت الگ نوعیت کے سیلاب ِبلا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کراچی کے لئے رواں سال چوبیس جولائی سے شروع ہونے والا مون سون سیزن زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوا بلکہ شاید یہ بدتر سال ہے کیونکہ اِس دوران ریکارڈ توڑ بارشوں سے ریکارڈ توڑ جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
مذکورہ عرصے کے دوران سب سے زیادہ (ریکارڈ) بارشیں ہوئی ہیں۔پاکستان کے کسی بھی حصے میں موسمیاتی ایمرجنسی کی صورت جس طرح کے ہنگامی اقدامات اور اعلانات کئے جاتے ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔ ہنگامی حالات کی پہلے سے ناکافی تیاری کے باعث ہم سیلابوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جبکہ باقی دنیا بھی موسمیاتی ایمرجنسی سے متعلقہ واقعات جیسا کہ جنگل کی آگ‘ سیلاب یا خشک سالی سے جانی نقصانات نہیں ہوتے اور اِن کی تباہ کاریاں بھی محدود ہوتی ہیں۔ وہاں کسی ایک نقصان کو ایک ہی مرتبہ ہونے دیتے ہیں اور نقصان کو بار بار دہرانے نہیں دیتے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے ایمریٹس پروفیسر بل میک گائیر کی ایک نئی کتاب ’ہاٹ ہاؤس ارتھ‘ خبردار کر رہی ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اِس درجہئ حرارت بڑھنے کا عمل بھی مسلسل جاری ہے جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں مزید طوفان اور خشک سالی دیکھنے کو ملے گی۔ دنیا نے صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد سے عالمی درجہ حرارت میں ایک درجہ سنٹی گریڈ سے کچھ زیادہ کا اضافہ کیا ہے لیکن یہ ایک درجہ سنٹی گریڈ بھی بہت زیادہ ہے۔
گزشتہ سال گلاسگو میں ہوئی عالمی کانفرنس (آب و ہوا اجلاس) میں کرہئ ارض کا درجہئ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوششیں کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا حالانکہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے سال 2030ء تک عالمی کاربن کے اخراج کو پینتالیس فیصد تک کم کرنا ہوگا۔گلوبل وارمنگ کا مطلب ہے گرم سمندر اور ان پانیوں میں جانوروں کی زندگی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ برفانی تودوں (گلیشیئرز) اور قطب پر موجود برف کا تیزی سے پگھلنا ہے جس سے بڑے پیمانے پر مزید سیلاب آئیں گے اور لاکھوں لوگوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔ آنے والے سالوں میں پیدا ہونے والے بچے غیرمحفوظ دنیا کا حصہ ہوں گے ایک ایسی دنیا جو کرہئ ارض کی بدلتی ہوئی آب و ہوا کے سامنے زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔انسانوں نے کرہ ارض کے موسمیاتی نظام کو دانستہ اور غیردانستہ طور پر تباہ کیا ہے۔ کرہئ ارض جیسے جیسے گرم ہوتا جائے گا‘ یہاں کی زراعت اور طرز زندگی دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ ہمیں اب آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے تیاری کرنی ہوگی۔ اس میں نہ صرف کاربن کے اخراج کو کم کرنا شامل ہے بلکہ یہ بھی کہ ہم اپنے گھروں کی تعمیر کے طریقے‘ رہن سہن‘ بودوباش میں کس طرح ماحول دوست تبدیلیاں لائیں۔ ذہن نشین رہے کہ صرف زمین ہی ہمارے نظام شمسی میں قابل رہائش جگہ اور انسانوں کے پاس رہنے کے لئے کوئی متبادل (پلان بی) نہیں ہے۔ موسمیاتی مزاج میں تبدیلی کا باعث بننے والی حرکات و سکنات سے گریز ہی مسئلے کا حل اور مستقبل کو بچانے کی صورت بن سکتی ہے جو قابل عمل ہے۔