سڑکوں پر گٹر کے ڈھکن آئے دن غائب ہو تے ہیں۔ وہ بیچارے سرکاری لوگ جن کو بیچارے ہی کہنا اچھا ہے کہ ان کے پاس بھی اس چوری چکاری کا کوئی چارہ نہیں ہے۔وہ ڈھکن تو لگا جاتے ہیں مگر ہفتہ دس دن کے بعد وہاں معلوم نہیں کس مہارت سے بعض لوگ لوہے کے یہ سرپوش توڑ کر لے جاتے ہیں۔ جانے کتنے روپوں میں بنتے ہوں گے مگر اونے پونے بیچ دیتے ہیں او راپنا نشہ پانی پورا کرتے ہیں۔ یہ تو ان کو چاہئے کہ جو کباڑ کا کام کرتے ہیں ان کو سختی سے منع کریں۔کیونکہ اس قسم کے ڈھکن کی شناخت تو آسانی سے ہوتی ہے۔چوروں سے اونے پونے داموں نہ خریدیں پھر ان کی اس حرکت کی اطلاع سرکاری لوگوں تک پہنچائیں۔ پھر خدا لگتی بات ہے کہ ڈھکن بھی اتنے کمزور لگائے جاتے ہیں جن میں لوہا تو نام کو ڈالا ہوتاہے۔ظاہر ہے کہ اس قسم کے جیسے کاغذ یا گتے جیسے بنے ڈھکن تو کوئی بھی ذرا زورلگاکر آسانی سے توڑ مروڑ کر اکھاڑ سکتا ہے۔اس راہ سے تو میں روز چار پانچ مرتبہ گزرتا ہوں۔
یہ سروس روڈ ہے جس پر دو طرفہ ٹریفک آتی جاتی ہے۔یہاں چار کی تعداد میں ڈھکن لگائے گئے ہیں۔پھر کمال یہ کہ قریب کے دکانداروں کو اس وقت ان کی درستگی کا خیال آتا ہے جب یہاں ان کی آنکھوں کے سامنے کوئی موٹر سائیکل اس بغیر ڈھکن گٹر میں گر جاتا ہے۔پھر ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور علاج نہیں ہوتا کہ نشاندی کے لئے کہ یہاں گٹر ہے وہ گذرنے والی گاڑیوں کے لئے گٹر کے پاس کہیں اینٹ کہیں کا روڑا لا کر رکھ دیتے ہیں تاکہ گاڑیاں یہاں سے کترا کر گزریں۔ کتنی بیش قیمت گاڑیوں کے اگلے ٹائر ان کھلے مین ہولوں میں جا پڑے۔مگر موٹر سائیکل سوار تو گرتے ہیں اور ان کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اور چوٹیں نصیب میں ہوتی ہیں۔بائیک والے توجاتے بھی تیز ہیں۔پھر ان کے ساتھ فیملی بھی ہو توان کو آہستہ جانے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔یہ اپنا دھڑلے سے کہ شاید گھوڑوں کی دوڑ میں بمعہ اہل و عیال حصہ لے رہے ہیں یوں جاتے ہیں کہ جیت کے فیتے کو ٹچ جو کرنا ہوتا ہے۔مگر ان کو معلوم نہیں کہ فتح کی سرخ ربن باہر نہیں گٹر کے اندر لگی ہوتی ہے جہاں سے یہ برآمد ہوتے ہیں تو حادثے کے کارن زخم لے کر ابھرتے ہیں۔کتنی بار ڈھکن لگائے اور بہت سی دفعہ یہ ڈھکن چرائے گئے۔ آخر ان کا سدباب ضروری ہے۔
آخر ان کا کیا ہوگا۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے آخر لوگ یہ سرپوش کیوں چراتے ہیں۔ آخر سرکاری لوگ اس کی پروا کیوں نہیں کرتے۔ جب یہاں سے گذروتو کتنے ہی سوالات میرے ذہن میں کلبلاتے ہوئے کیڑوں کی طرح مجھے بے چین کئے دیتے ہیں۔پھر ایک سڑک تو نہیں۔ قریب کے دکانداروں کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ان چوروں کی گھات میں بیٹھیں یا ان کا کوئی اور بندوبست کریں۔ کیونکہ یہ تو روزکی مصیبت ہے۔لوگ گر رہے ہیں گاڑیاں ان جا پڑتی ہیں۔یہاں کے چار گٹر یکے بعد دیگرے سامنے آتے ہی او راچانک آتے ہیں۔ جن سے بچنا اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب اس سڑک پر سے کوئی پہلی بار گذرے۔مگر جو روز کے گذرنے والے ہیں وہ یہاں سے احتیاط کر کے آگے جاتے ہیں۔ وہ کیا شعر ہے عدم کا کہ ”وہ پرندے جوآنکھ رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں“ جو یہاں خود چوٹ کھاتے ہیں یا کسی اور کو چوٹ کھاتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں وہ تو یہاں اگر اینٹیں روڑے نہ بھی ہوں تو احتیاط کرتے ہیں۔ مگروہ جو اجنبی ہوں اور رات کا عالم ہو تو ان کا ان گٹروں میں گرنا عین ممکن ہے۔ ان راستوں کی چیکنگ کچھ تو سرکاری عملے پر فرض ہے اورکچھ اپنے کھاتے میں آتی ہے۔
کبھی رک کر کسی نے ان ڈھکنوں کے بغیر گٹروں کے فوٹو نہیں اتارے اور پھر فیس بک وغیرہ پر نہیں دیئے۔ جب عوام کو طلب نہ ہو تو سرکار کو کیا پڑی ہے کہ پتا لگائے۔ان سرکاری لوگوں کو پتا دیں گے توان کو پتا لگے گا۔ایسے میں کہ پورے شہر کا یہ حال ہو تو بندہ کہاں جائے۔ ہم میں خود شعور کی کمی ہے خودہم اپنا حساب سنبھال کر نہیں رکھتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ مگر ہم کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔چوراگر چوری کر رہاہو تو اس کوروکنا تو درکنار اس کو آواز تک نہیں دیتے کہ اے بھائی یہ کیا کر رہے ہو۔اگر یہ حال ہے تو شہر کا حال بے حال نہ ہو توکیاہو۔شہر کو شہر والوں نے سنبھالنا ہے باہر سے لوگ نہ آئیں گے کہ شہر کی ہر سڑک کی جانچ پڑتال کریں اور درستگی کے لئے کچھ نہ کچھ اقدام کریں۔