نئے رنگ موسم کے


ایک تو یہاں ذرا سی ہوا چلے توآسمان میں پتنگ بازی کامیدان گرم ہو جاتا ہے بچے پتنگ لے کر سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔انکی گڈی کی ڈور راستے میں جاتے شہریوں کے سینوں پر لہراتے سانپ کی طرح ڈولنے لگتی ہے‘پنجاب میں پابندی مگر ہمارے ہاں اب تلک رنگا رنگ کاغذوں کی بنی پتنگ بازی کا میدان سجا ہے آج کل موسم کی انگڑائیاں اپنے عروج پر ہیں کبھی بارش کبھی بادل کبھی دھوپ اور کبھی حبس اور کبھی تپش۔حالانکہ جب مئی اور جون نہیں آئے تھے تو یہ تین مہینے جو اگست کے ساتھ مل کر آنیوالے تھے ایک بہت بڑا اور اونچا پہاڑ محسوس ہو رہے تھے جن کو سر کرنا ایک الگ کوہِ گراں لگتا تھا مگر جون ہی میں موسم کی گرمی یوں اڑن چُھو ہوگئی کہ جیسے یہ مہینے بہارکی ہوا کے ماہ ہوں اور ٹھنڈی ہوا ؤں کے راج کرنے کا دورانیہ ہو اس سے قبل تو اگست کے بارے میں یہ امیج تھا کہ اس مہینے گرمی کے ساتھ حبس کا عالم ہوتا ہے‘درختوں کے پتے اورشاخیں یوں لگتا ہے کہ سرسبزہ کی تصویریں ہوں اس سال تو اگست میں بھی درختوں کی شاخیں جھوم رہی ہیں ایک دوسرے کے گلے مل رہی  ہیں کیونکہ آج کل تو جوں دوپہر ڈھلتی ہے تو شام سے پہلے ہوا کے جھونکے چلنا شروع ہو جاتے ہیں پرسوں شام اس طرح کی ہوا چل رہی تھی کہ نگاہیں آسمان کی اور دیکھتی رہ گئیں‘ایک تو پتنگیں اور پھر چودہ اگست کے حوالے سے پاکستانی پرچم کے پھریرے ہر بلڈنگ اور ہرگھر پر پھڑ پھڑا رہے تھے ایک خوبصورت منظر تخلیق ہو چکا تھا جیسے اگست کی حبس کا عالم نہ ہو بلکہ مارچ کے مہینے میں چلنے والی ہوا کی روانی ہومگر موسم کی عالمی تبدیلی نے کچھ ایسا رنگ دکھلایا ہے کہ گذشتہ روز پھر سے شدید بارشوں کی اطلاع دی گئی ہے پورے ملک میں بارشوں کے ہونے کا سندیسہ دیا گیا ہے مگر سب ٹھنڈی لہروں کا اسلام آباد تک آنا بتلایا گیا ہے جن میں پشاور کا کچھ حصہ نہ تھا مگر اتنے بڑے پیمانے پرابر اگر کھل کر برسے اور جم کر پانی برسائے تو پشاور کو اس کا حصہ کچھ نہ کچھ سہی ٹھنڈی ہوا اور موسم کی خوشگواری کی شکل میں مل جاتا ہے‘کتنی بارشیں ہوئیں سیلاب کی خطرناک صورتِ حال ہوئی مگر پشاور میں بارشوں کا وہ سلسلہ دراز نہ ہوا جو دوسرے شہروں میں اب تک موجود ہے  پھرپورے مہینے میں اب تک مزید پیشن گوئیاں بھی کانوں میں سرسراتی ہیں مگر دوسری طرف جو کم کم ابرو باراں پشاور اور اس کے گرد وپیش میں ہوا اس نے تباہی کے کاری وار کئے جن کو دیکھ کر بارش ہونے کی خواہش نہیں ابھرتی بارش ہو تو امن امان کی برکھائیں برسیں بادلوں کی چھاؤں ہو مگر دھوپ کی تمازت نہ ہو کہ بیٹھے بٹھائے بوڑھوں کے گال بھی یوں ا س گرمی سے سرخ ہو جائیں جیسے نوجوان بچوں کے رخساروں پر خون کی قدرتی سرخی موجود ہوتی ہے‘ دوسری طرف اس موسم میں بھی کبھی حبس ہو تو بجلی کا آنا جانا لگا ہوا ہے بات یہ کہ دل کا زور نہیں رہا گرمی کے تھپیڑے جو کم کم سہے ہیں انہوں نے بے حال کر رکھا ہے‘موسم تو برابر ہے مگر یہ جو بجلی نہیں ہوتی اور ہر آدھ گھنٹے کے بعد آدھ گھنٹے کیلئے کہیں چلی جاتی ہے اس نے تو شہریوں کے ناک میں دم کر دیا ہے رات کو اندھیرے میں پنکھیاں لے کر جھلنا شروع کر دیں کیونکہ یو پی ایس بھی اگر جن گھروں میں اپنے وجود کی بہار دکھلاتا تھا وہاں بھی اب خزاں کے ڈیرے ہیں‘ یو پی ایس نے کیا کام کرنا ہوگا جب اس میں چارج ہی پورا نہ ہو‘ بجلی ہوگی تو چارج ہوگا بجلی نہ ہو تو پانی کہاں سے آئے گا؟پانی نہ ہو تو مستورات گھروں میں کپڑے دھونے کی مشین کہاں سے لگائیں گی‘ بجلی آ جائے تو کپڑوں کی مشین او رڈرائیر گڑگڑاہٹ شروع کر دیں مگر پھر بجلی غائب ہو جائے‘ گرمی تو ہے مگر موسم کی تلخی اتنی نہیں جو پچھلے سال تھی  اس سال تو قدرت نے کافی سہولت دی ہے جن علاقوں میں نے تباہی مچائی اور بھیڑ بکریوں کو سالم نگل لیااور ان کے مردہ جسم انسانوں کی لاشوں کے ساتھ برابر کر کے اپنے ہمراہ لے گئیں۔اس سے خدا کی پناہ مگر یہ ہے کہ مجموعی طور پر گرمی کی وہ شکایات جو پہلے ہوا کرتی تھیں اس سال نہ تھیں موسم کی خوشگواری تاحال اپنی جگہ دلوں کو راحت دیتی ہے مگر آگے کا حال معلوم نہیں کہ موسم کیا رنگ دکھلانے والاہے۔