یہ کالم ویسے ہی آپ تک نہیں پہنچتا۔ اس کے پیچھے بھی بجلی کی کارستانیوں کی طویل داستان ہے۔جس کا اظہار یہاں بے کار ہوگا۔مگر اس وقت جب میری دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کمپیوٹر کی بورڈ پررقص کر رہی ہیں۔بیگم صاحبہ ہاتھ کی پنکھیا لئے میز کے سامنے بیٹھی ہیں اور ہوا دے رہی ہیں۔پسینے ٹپ ٹپ گرتے جارہے ہیں اور کالم کمپیوٹر سکرین پر چڑھتا جا رہا ہے۔بالکل پنجابی فلموں کی طرح جب ہیرو مگر ہیرو کہاں ہم میں ہیرو کی کون سی بات اب رہ گئی ہے۔حسن وجوانی ہے اور نہ ہی زور و زر ہے اور نہ وہ رعب و دبدبہ۔ہیرو کے بجائے زیرو کہنا زیادہ بہتر ہے۔فلم کا ہیرو تو کھیتوں میں کام کرکے محنت و زحمت میں اپنے پسینے بہا کر جب کھانے کے لئے بیٹھتا ہے تو اس کو خاتونِ خانہ لسی اور ساگ اور جوار کی روٹی کھلاتی پلاتی ہے اورساتھ پنکھا جھلتی رہتی ہے۔ہمارا بھی بجلی کے غائب غلان ہوجانے سے یہی حال ہے۔ بے وقت جب بجلی چلی جاتی ہے تو ہم نے کہ کالم لکھنے کے لئے ایک وقت معین کیا ہوتا ہے ایمرجنسی میں فوراً اٹھ کر کالم لکھنے کو کمپیوٹر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔چھت کاپنکھا بند کر دیتے ہیں کہ یوپی ایس اب اتنا زور بھی تو برداشت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ لوگوں نے گھروں میں اس بجلی کی چھپن چھپائی کے کھیل میں یوپی ایس خراب ہونے کے شک میں یہ مشین بھی بدل دی ہے اور نئی کمپنی کا نیا یوپی ایس لے آئے ہیں۔ مگر حال وہی ہے۔
بجلی اگر ٹھہرے اوراس کو قرار ہوتب جا کر یو پی ایس بھرا جائے۔بلکہ کتنے ہی لوگوں نے تو کمرے کے گھڑیال کے سیل ہی بدل دیئے ہیں کہ بجلی جانے کایہ وقت تو نہ تھا۔شاید ہماری گھڑی خراب ہے۔کیونکہ مثلاًعین بارہ بجلی نے جانا ہوتا ہے اور اگر سوا گیارہ چلی جائے تو اچانک گھڑی کے سیل بدلنے کی طرف دھیان چلا جاتا ہے۔اب دن میں ہر وقت تو سیل تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔یہ تو ان کو چاہئے کہ اپنے رویے بدل لیں۔ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے چلن کو تبدیل کرلیں۔مگر کہاں۔میں نے پوچھا بجلی تو بارہ بجے جاتی ہے اب تو تین پاؤ وقت باقی تھا مگر پہلے چلی گئی۔اب کس وقت جائے گی۔فرمایا گیا کہ ہوش کے ناخن لیں بجلی آئے گی تو جائے گی نا۔ اب تو لمبی گئی ہے۔ فوراً کمپیوٹر کی جانب لپکے کہ اپنا کام نکلوا لیں۔ پھرجب دوران لکھائی یوپی ایس میں سے چارج کم ہوجانے کی آوازیں آتی ہیں تو دوسرے کمرے کا پنکھا بھی بندکر دیتے ہیں۔ جب یہ حال ہو تو ہم بے حال نہ ہوں۔اب اس لوڈ شیڈنگ پر کتنا لکھیں گے۔لکھ لکھ کر ہاتھ ہمارے قلم ہونے لگے ہیں۔یہ حکایات یہ افسانے یہ قصے لکھتے ہوئے انگلیاں تھک گئی ہیں، اگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کریں کم ہی کردیں۔اب آپ بتلائیں کہ کیا کریں ”کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا“ ہم نے کارگزاری کی کہانی نہیں بلکہ کہانیاں اپنے کالموں میں لکھ ڈالی ہیں۔مگر ان کا دل کہا ں نرم ہوتاہے۔پھر بجلی بھی آئے تو آدھی سے تھوڑا اوپر وولٹ کی لائٹ بھیجتے ہیں جس سے بور مشین چلے تو جلے اور اے سی چلے تو ہوا نہ دے۔ اب اے سی پر شک کر کے اس کو تو بدلا نہیں جا سکتا۔
یہ کوئی ہزار دو ہزار کی چیز تو نہیں۔ لوگوں نے گھروں میں اے سی لگا رکھے ہیں پھر بجلی چوری کے مسائل بھی تو ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جہاں بجلی کی چوری کی جاتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ان کو سزا دینے کے لئے ہمیں بھی ساتھ رگڑا دیتے ہیں جو بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔رات کو ہاتھ سے پنکھا جھل جھل سو جاتے ہیں۔مگر آنکھ لگنے نہیں پاتی۔ اگر نیند پوری نہ ہو تو دن بھر کے کام کیسے کریں گے۔ دن کو کام کرتے ہوئے جھولتے رہیں گے۔گھر میں بیٹھے ہوں تو جس کو دیکھو پوچھتا ہے کہ یہ بجلی کب آئے گی۔ کیونکہ بے وقت کی گئی ہوئی بجلی کے آنے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔آئی تو آ گئی نہ آئی تو نہیں آئے گی۔ پھرجب آئے گی تودس منٹ کے بعد دوبارہ گئی یا پھرآنے کے بعد اسی وقت چلی جائے گی۔ معلوم نہیں ہوگا یہ جاتی کہاں ہے۔لوگوں نے اپنے گھروں میں بجلی کے آلات لا کر رکھے ہیں۔ ہر طرح کے ساز و سامان مگر بجلی ہو تو وہ چلیں۔ حتیٰ کہ گیس بھی تو نہیں ہوتی۔ایک اودھم مچا ہوا ہے۔بالکل کایا ہی پلٹ گئی ہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا او رکس کو سمجھ میں آئے گا۔ پورے ملک کا ایک ہی حال ہے۔