امریکی صدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اکتیس جولائی کو القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو ڈرون حملے سے مارنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعے کے امریکہ، القاعدہ اور افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔امریکہ نے ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا ہے مگر ابھی تک اس نے اس دعوے کا کوئی قابل قبول ثبوت پیش نہیں کیا۔ ادھر القاعدہ بھی خاموش ہے اور طالبان حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی سخت موقف نہیں دے رہی۔ طالبان نے فروری 2020 کے دوحا معاہدے کے وقت وعدہ کیا تھا وہ افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔ ابھی تک وہ اپنے وعدے پر عمل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ افغانستان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹ میں اس ڈرون حملہ کو بین الاقوامی اصولوں اور دوحہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی اور گذشتہ 20 سال کے ناکام تجربات کو دہرانے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس قسم کے اقدامات امریکہ، افغانستان اور خطے کے مفادات کے خلاف ہیں۔ لیکن طالبان حکومت نے ابھی تک اس واقعے پر امریکہ کے خلاف کوئی سخت سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ رائٹرز کو ایک نامعلوم اہم افغان حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ پچھلے دو دنوں سے افغان حکومت اس واقعے پر اپنا موقف تیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم ترجمان نے تصدیق نہیں کی کہ اس گھر میں ایمن الظواہری موجود تھے اور وہ یا کوئی اور القاعدہ رہنما اس حملے میں مارے گئے ہیں۔
افغان حکومت کا یہ محتاط ردعمل اگرچہ حیران کن ہے مگر یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے احساس ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب وہ دنیا سے تعلقات بہتر بنانے، اپنی حکومت کو تسلیم کرنے اور غیر ملکی امداد لینے اور امریکہ سے افغانستان کے منجمد اثاثے واگزار کرنے کیلئے کوشاں ہیں ان کا اس کاروائی پر موقف کافی اہم ہے اور اس کے مثبت یا منفی اثرات ہوں گے۔امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کیلئے منگل کو ایک بین الاقوامی احتیاط ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کے بعد دنیا بھر میں القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے امریکہ مخالف تشدد کے کافی امکانات ہیں اس لیے بین الاقوامی سفر میں احتیاط کریں۔ امریکہ اس ایڈوائزری کے ذریعے القاعدہ کا خوف اگر اپنے مقاصد کیلئے پھیلانا چاہے تو وہ آزاد ہے مگر یہ ایڈوائزری غیر ضروری محسوس ہوتی ہے۔امریکی افواج ایک سال پہلے افغانستان سے چلی گئیں۔ جاتے وقت امریکی صدر نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کاروائیاں جاری رکھے گا۔ القاعدہ سربراہ کے خلاف اس کاروائی سے صدر جو بائیڈن، جن کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے چلاگیا تھا، کی ملک میں مقبولیت بڑھ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ زمینی افواج رکھے بنا بھی افغانستان میں چاہے تو کاروائیاں جاری رکھ سکتا ہے۔
امریکہ طاقت کے نشے سے سرشار ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کے کسی ملک میں بھی اپنے مفادات کیلئے خطرہ بننے والے افراد پر حملہ کرے اور انہیں قتل کرے مگر ان اندھادھند حملوں سے یہ محفوظ ہونے کے بجائے مزید غیر محفوظ ہوتا آیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایمن الظواہری پر حملے سے امریکہ القاعدہ کی حربی صلاحیت کو روکنے اور افغانستان کو اپنے دشمن عناصر سے پاک کرنے اور اسے پھر غیرمستحکم ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے امریکہ کو طالبان اور افغان زعما کے ساتھ تعلقات کار اور پاکستان، چین اور روس کے ساتھ اشتراک و تعاون کو یقینی بنانا ہوگا۔ امریکہ نے افغانستان کے نو ارب ڈالر اثاثوں میں سے سات ارب افغان قوم کی مصائب و تکالیف کم کرنے کیلئے بین الاقوامی امدادی اداروں کے ذریعے استعمال کرنے کی حامی بھری تھی مگر ابھی تک عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔ مبینہ ڈرون حملے کے بعد اب حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اس حملے سے یہ اشارہ ضرور ملا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور افغانستان میں امن کا قیام اب بھی مشکل مرحلے میں ہے۔