بھو لنے کی عادت 

اخبار میں خبر آئی ہے کہ چند سال پہلے حکومت نے ایک اتھار ٹی قائم کی تھی اس کا دفتر بنا تھا اس کے ملازمین جگہ جگہ نظر آتے تھے آج کل اس اتھا رٹی کے کا م کا پتہ نہیں چلتا، حکومت نے بھی اس کو بھلا دیا ہے، عوام نے بھی بھلا دیا ہے اس پر مجھے مشہور کنسلٹنٹ سلمان آصف کا سنا یا ہوا واقعہ یا د آیا موصوف نے واقعہ سنا یا تھا کہ ایک سال میں پاکستان کی لو ک مو سیقی اور لو ک ادب پر کا م کرنے والے ما ہرین کی جما عت کو لیکر اسلا م آباد میں لوک مو سیقی جمع کرنے والے بڑے اداروں میں گیا ان میں ایک ادارے کا بڑا ہال تھا ہال کے اندر دھیمی روشنی تھی بڑی بڑی الما ریاں تھیں بڑے بڑے شیلف تھے ان میں لا کھوں کی تعداد میں کیسٹوں کے ڈبے پڑے تھے گھو م پھر کر ہم ایک  ٹیبل پر آبیٹھے جہاں ایک شخص کمپیو ٹر پر کوئی اہم کام کر رہا تھا اُس نے ہماری آمد کا چنداں نوٹس نہیں لیا، تھوڑی دیر خا موش بیٹھنے کے بعد میں نے مو صوف سے پو چھا بھا ئی ذرا یہ تو بتاؤ کہ یہ سب کیا ہے؟

 اس نے گھور کر مجھے دیکھا میرے مہما نوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا صاحب! کیا پو چھتے ہو‘ یہ قبر ستان ہے میں نے کہا کس کا قبر ستان؟ کیسا قبرستان؟ اُس نے پر سکون لہجے میں کہا یہ پاکستان کی لو ک مو سیقی کا قبرستان ہے اس میں وہ آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ نگز دفن ہیں جو وزارت ثقا فت کی ٹیموں نے ما ہرین کو لیکر بلو چستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر 15سالوں میں جمع کی تھیں ان کی ایڈیٹنگ  ہوئی تھی ان کی کا پیاں بنواکر بیرون ملک سفارت خا نوں اور ثقا فتی اداروں کو دینی تھیں، دنیا بھر میں ان کے ذریعے ہماری ثقا فت کی ما ر کیٹنگ کر نی تھی‘ میں نے پو چھا پھر کیا ہوا؟ اُس نے سرد آہ بھر تے ہوئے کہا ہم بھول گئے، حکومت بھو ل گئی، حکام بالا بھو ل گئے اب یہ مُر دوں کی ہڈیاں ہیں اور میں ان کا مجاور ہوں، سلمان آصف نے یہ بات حیرت، تعجب اور تا سف کے ساتھ ہمیں بتائی مجھے تجسس ہوا پھر میں نے اس قبرستان کی سیر کی میز پر بیٹھ کر کمپیو ٹر پر کا م کرنے والے ساونڈ اینڈ وی ٹی آر انجینئر یو سف ہارون سے ملا واقعہ ان کو سنا یا تو بے ساختہ بو لے وہ یو نیسف کے لو گ تھے۔

 آپ کی طرح راستہ بھول کر یہاں آئے تھے کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا آدمی آہی جا تا ہے‘ ایک اندازے کے مطا بق ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی سطح کے ایسے اداروں کی کل تعداد 132ہے جو کسی زما نے میں بڑے طمطراق کیساتھ بنا ئے گئے تھے، بڑے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ان کا افتتاح ہوا تھا پھر ان کو بھلا دیا گیا‘ ایک پرا نی کہا نی ہے کسی ملک کا باد شاہ شکا ر سے واپس آتے ہوئے ایک دریا پر پہنچا جہاں لوگ  جاکر پا نی پیتے تھے باد شاہ نے اپنے وزیر سے کہا یہاں ایک مٹکا یا گھڑا رکھوا دو لوگ پا نی پئیں گے، وزیر نے اگلے دن تجویز پیش کی ”شاہی گھڑا لب دریا“ کے لئے ایک ماشکی، ایک چو کیدار، ایک داروغہ، ایک مُنشی اور چند سپا ہی بھر تی کئے جا ئینگے اس عملے کے رہنے کیلئے مکا نا ت اور دفاتر بنا ئے جائینگے باد شاہ نے منظوری دیدی مکا نا ت بن گئے، لو گ بھر تی ہوئے کا م شروع ہوا ”شا ہی گھڑا لب دریا“ نصب کیا گیا چند سال بعد باد شاہ کا انتقال ہوا۔

 بیٹا تخت نشین ہوا، پھر چند سال گذر ے ایک دن نیا باد شاہ سیر کو نکلا اُس مقام پر عما رت دیکھی، سستانے کے لئے گھوڑے سے اترا مکان کو دیکھ کر مکینوں سے پو چھا یہ کیا ہے‘انہوں نے بتا یا کہ ”شا ہی گھڑا لب دریا“ کا دفتر ہے، باد شا ہ نے کہا شاہی گھڑا کدھر ہے؟ دفتر کے داروغہ نے عرض کیا گاؤں میں پینے کا پا نی نلکوں میں آتا ہے لو گ دریا کے کنا رے نہیں آتے، گھڑا ٹو ٹ گیا باد شاہ نے وزیر سے کہا ان لو گوں کو قلعے میں کا م پر لگا دو اور عمارت کو شاہی گودام میں بدل دو‘ وزیر نے کہا عالی جا ہ حکم کی تعمیل ہو گی اور حکم کی تعمیل ہو ئی اگر باد شاہ سیر کو نہ آتا تو نہ جا نے کب تک شا ہی گھڑا لب در یا کا دفتر یونہی چلتا رہتا، سچی بات یہ ہے کہ ہم اداروں کو بنا نے کے بعد بھو ل جا تے ہیں۔

 سول سروس کے سابق آفیسر عکسی مفتی نے کتا ب لکھی ہے ”کاغذ کا گھوڑا“ کتاب میں بھو لے بسرے اداروں کی طرف اشارہ کر کے لکھتا ہے کہ وطن عزیز میں اتھارٹی، اکیڈیمی، کمیشن، انسٹیٹیوٹ، کونسل اور دیگر نا موں سے سرکاری ادارے بنا ئے جا تے ہیں انکے مقا صد بڑے نیک ہو تے ہیں ان کا دستور العمل بہت پیارا ہو تا ہے چند سال گذر نے کے بعد اصل مقصد اور کام پیچھے رہ جا تا ہے، دفتر میں تنخواہ، الا ؤنس، پنشن وغیرہ کا ذکر ہو تا ہے کسی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ دفتر کس لئے بنا یا گیا تھا اگر کوئی یونیورسٹی مینجمنٹ کے کسی طا لب علم کو اس پر تحقیق کا کا م دیدے تو پی ایچ ڈی کا مقا لہ تیار ہو سکتا ہے۔