الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ عام انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کر لیا ہے انتخابی حلقہ جات کی مرتب کردہ نئی اور حتمی فہرست کے قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کی گئی ہے جو پہلے 342 تھیں اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ 336 کر دی گئی ہیں ذہن نشین رہے کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد جس میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (FATA) کو خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں ضم کر دیا گیا تھا کی وجہ سے 12 اراکین کی قومی اسمبلی نشستیں ختم کرتے ہوئے اُنہیں چھ حلقوں میں ضم کر کے خیبرپختونخوا اسمبلی کا حصہ بنا دیا گیا تھا اور یہ عمل ہر انتخابی حلقوں کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی قومی اسمبلی نشستوں کی تعداد کم کرنے کی وجہ سے اِن نشستوں کی کل تعداد 272 سے کم ہو کر 236 رہ گئی ہے اور نئی حلقہ بندیوں سے مذکورہ ترمیم بھی خودبخود فعال ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کے تناسب کو تبدیل نہیں کیا جو اب بھی بالترتیب ساٹھ اور دس فیصد ہے۔نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے پنجاب اسمبلی کی141‘ سندھ کی 61‘ خیبرپختونخوا کی 45‘ بلوچستان کی 16 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی 3 جنرل نشستیں ہوں گی۔
آئین کے آرٹیکل 51 کی پانچویں ذیلی شق اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی 17ویں شق کے مطابق انتخابی حلقہ بندیاں کسی بھی حلقے کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہیں اور آبادی معلوم کرنے کا پیمانہ آخری مرتبہ ہوئی مردم شماری ہے‘ جس پر قریب سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر رکھا ہے اور اُمید تھی کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کروائی جائے گی تاکہ آبادی سے متعلق جمع کردہ اعدادوشمار میں غلطیوں یا کمی بیشی کا ازالہ کیا جا سکے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور متنازعہ مردم شماری ہی کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔پاکستان میں عام انتخابات کیلئے جن اعدادوشمار پر ”بھروسہ“ کیا جاتا ہے‘ اُن میں سنجیدہ نوعیت کی خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی ہر مرتبہ ’مردم شماری‘ ہی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں جبکہ متبادل کے طور پر ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی ڈیٹابیس موجود ہے اور قومی شناختی کارڈ بنواتے یا اِس کی تجدید کرواتے وقت ہر بالغ درخواست گزار سے اُس کی رضامندی حاصل کی جا سکتی ہے کہ کیا وہ اپنا نام بطور ووٹر رجسٹر کروانا چاہتا ہے یا چاہتی ہے؟
اگر وہ ہاں کہے تو اُسے قومی و صوبائی حلقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے۔ یہ عمل انتہائی آسان سادہ اور شفاف ہے لیکن چونکہ حلقہ بندیوں کو سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر بھی مرتب کیا جاتا ہے اِس لئے سیاسی جماعتیں کبھی یہ حل (solution) پسند نہیں کریں گی اور نہ ہی مرحلہ وار ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کی طرف جایا جائیگا اگرچہ اِسے پہلے مرحلے میں صرف شہری مراکز میں نافذ کیا جائے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت سمارٹ فونز کے ذریعے آن لائن وسائل اُور ’اے ٹی ایم‘ کارڈز وغیرہ استعمال کرتی ہے۔ درحقیقت سیاسی جماعتیں انتخابی حلقہ بندیوں اُور ووٹرز فہرستوں میں جن خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہیں اُس کیلئے کوئی دوسرا نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہیں!الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 266 اور صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 نشستوں کی جو حلقہ بندیاں جاری کی ہیں‘ اُن کے بارے میں سب سے پہلا اختلافی ردعمل ’پیپلزپارٹی‘ کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ اصولاً پیپلزپارٹی جو کہ وفاقی سطح پر حکمراں اتحاد کا حصہ جبکہ سندھ کی حکمراں جماعت ہے کو چاہئے کہ وہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا معاملہ وفاقی کابینہ اجلاس میں زیربحث لائے اور جس طرح ایک درجن سے زائد حکمراں اتحادی جماعتوں نے مختلف امور پر اتفاق رائے قائم کر رکھا ہے بالکل اسی طرح الیکشن اصلاحات کے بارے بھی ایک ہی مؤقف سامنے آنا چاہئے۔
نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق پیپلزپارٹی کا مؤقف ’سوفیصد درست‘ اور ’منطقی‘ ہے اور وہ یہ ہے کہ ”اگر متنازعہ مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں گی تو یہ حلقہ بندیاں بھی متنازعہ ہی رہیں گی“ قابل ذکر ہے کہ ’مشترکہ مفادات کونسل (کونسل آف کامن انٹریسٹس) نے بھی ”مردم شماری 2017ء“ کے اعدادوشمار کو غلط قرار دیا ہے اور سندھ حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ 31 دسمبر 2022ء سے قبل ’نئی مردم شماری‘ کروائے گی ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے باوجود ایک متنازعہ مردم شماری کو درست قرار دیدیا گیا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے نئی مردم شماری کرانے کے متفقہ فیصلے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے! ماضی میں بھی جب کبھی اس طرح کے غیر منصفانہ اور متنازعہ فیصلوں کے ذریعے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسی ہر کوشش سے کچھ نہ کچھ نتیجہ تو ضرور برآمد ہوا ہے لیکن یہ دانشمندانہ اور نتیجہ خیز اقدام نہیں رہا۔جمہوریت تنازعات کو حل کرنے اور تنازعات کا باعث بننے والے امور سے اجتناب کا نام ہے جمہوریت کسی مسئلے کے حل کیلئے درمیانی اور متبادل راستے تلاش کرنے کا بھی نام ہے جس میں اجتماعی دانش فیصلہ کن اُور قائدانہ کردار ادا کرتی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مسائل کے حل کی بجائے اُن سے مزید مسائل پیدا کرنے کو زیادہ بہتر تصور کیا جاتا ہے اور تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی بجائے قلیل مدتی اور طویل مدتی مسائل پیدا کئے جاتے ہیں جو قومی اتحاد و اتفاق کی بجائے تفرقہ انگیز تنازعات کو ہوا دینے کا باعث ہوتا ہے۔
کیا الیکشن کمیشن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرثانی کریگا؟ قومی سطح پر سیاسی و اقتصادی استحکام کیلئے بھی ضروری ہے کہ شکوک و شبہات سے بالاتر ’طرز ِانتخاب بشمول حلقہ جات‘ وضع کئے جائیں توجہ طلب ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا کرنا ماضی کی نسبت زیادہ آسان اور کم خرچ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں کی طرح انتخابی عمل کو زیادہ شفاف بنانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا اب وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے جہاں انتخابی عمل میں آسانی ہوگی وہاں اس طرز عمل کو بھی ختم کرنے مدد ملے گی کہ دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا جائے۔ اس وقت جو سیاسی عدم استحکام ہے یا سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات میں تلخی ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ انتخابی نتائج کے حوالے سے اختلافات دیکھنے میں آرہے ہیں اور کوئی جماعت بھی دوسرے کے موقف کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسلئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے استفادہ کرنے کیلئے اگر سرمایہ کاری پر اخراجات بھی آتے ہیں تو وہ اس لئے قابل قبول ہیں کہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے نتیجے میں سیاسی استحکام اور پھر اس کے نتیجے میں معاشی استحکام آئے گا جس کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔