موبائل شیئرنگ

شیئرنگ اچھی چیز ہے مگر مثبت ہو‘ اگر اچھی چیزیں اور تفریح کے کلپ موبائل پر شیئر ہوں تو چلو زندگی میں کشش کا عنصر باقی رہتا ہے ہاں جو لوگ بہ اندازِ غلط یہ ارسال و ترسیل کرتے ہیں وہ بھی اپنی ان منفی سرگرمیوں میں خوش رہتے ہیں مگر دوسروں کو جو‘ ان ناپسندیدہ اشیاء سے دور بھاگتے ہیں‘ناراض ضرور کرتے ہیں‘ ویسے بھی جو موبائل صارف ہو اس پرایک فرض ضرور عائد ہو تا ہے کہ جو غلط مووی اور تصویر ہو وہ دیکھ کر اس وقت ڈیلیٹ کردے اگر نہ اُڑائے تو یہی بری چیز آگے پھیلتی ہوئی مزید لوگوں تک پہنچتی جائے گی پھراس کا گناہ پہلے دوسرے اور ہرتیسرے آدمی کے نامہ اعمال میں دگنا تگنا اور چوگنا ہو کر جمع ہوتا جائیگا مگر ہم کہاں سمجھتے ہیں‘ہم تواپنے حساب سے آگے بڑھا دیتے ہیں مگر ہمارے اعمال کے کھاتے میں گناہوں کے کالے صفحات زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہو پاتا پھر سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانا تو اس سے زیادہ قابلِ نفرت حرکت ہے کسی واقعہ کے بارے میں کسی تحقیقاتی ادارے کی طرف سے جو رپورٹ دس دنوں میں آنیوالی ہو اس طرح کی رپورٹ کسی نابکار اور انجان انسان کے بیہودہ تجزیوں اور اندازوں میں بدبو چھڑکتی ہوئی موبائل سکرین پر اگلے دن سامنے آ جائے گی پھر جب وہ گرفتار ہو گا تو معافیاں مانگے گا۔

 یہاں وٹس ایپ اور میسنجر میں کتنے گروپ ہیں‘کاروباری حلقوں کے الگ گروپ ہیں اور بلڈ ڈونیشن والوں کی جداحلقہ بندی ہے پھر تعلیم حاصل کرنیوالے دوستوں کی اپنی الگ سی دنیا اوراپنی درجہ بندی ہے جس میں وہ وٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنی مشکلات شیئر کرتے ہیں جس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔پھر شعر وادب کے گروپ ہیں‘جس میں پاکستان کے طول و عرض کے شاعر شاعرات او رادیب لوگ اورادب کے فین شامل ہیں‘پھر اس گروپ میں باہر ملکوں سے بھی لیلائے ادب کی زلفوں کے اسیر اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ طالب علم جو ماسٹرز کرچکے ہوتے ہیں اور انہوں نے پبلک سروس کمیشن میں ٹیسٹ انٹرویو کی تیاری کرنے کیلئے کسی گروپ کو جائن کیا ہوتا ہے یہ ان کیلئے بہت فائدہ مند ہے وہ ایک دوسرے سے اپنے مطالعے کے دوران میں آنے والی رکاوٹوں اور ناسمجھیوں کا حل تلاشتے ہیں۔

ایسی مثبت سرگرمیاں قابلِ داد ہیں اور قابلِ تعریف ہیں مگر اس دوران میں گروپ بیہودہ پن کو فالو کرتا ہے تو بہت افسوس کامقام ہے اور پھر کوئی فرد موبائل کی لغویات کو آگے کسی کے سات شیئر کرتا ہے تو یہ زیادہ برائی ہے کیونکہ ناسور کو پھیلنے سے روکنا ہوتا ہے اور متعددی بیماری کوئی ہو اس کے پھیلاؤ کی راہ میں دیوار اٹھانا پڑتی ہے مگر یہاں تو اور ہی بازار گرم ہے جس کا من چاہے جو بھی نیٹ پر چڑھا دے‘کسی کی روک ٹوک جو نہیں ان کو نہ تو ماں باپ چیک کرتے ہیں کہ تم آخر کر کیا رہے ہو‘ پھرنہ ہی مزید ہدایت دیتے ہیں کہ اگر رنگین موبائل استعمال کرتے ہو مگر اس کے اپنے آداب اور تہذیب کا خیال رہے کیونکہ غلطی کرو گے پکڑے جاؤ گے تو تمہاری جگہ تمہارے ماں باپ کو بھی اس برے کام کی وجہ سے سوشل میڈیا پر آکرمعافیاں مانگنا پڑیں گی‘جو قومیں سمجھ بوجھ رکھتی ہیں وہ اس برائی کی طرف سرے سے نہیں آتیں مگر ہم ہیں کہ ہمیں کوئی ایک فرد بھی اس قسم کی بیہودہ حرکات کی طرف ذرا سا مائل کرے تو ہم گروپ بنا کر اس کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔

ہمارے اخلاق و کردار میں یہ سدھار کہاں سے آئیگا یہ انمول چیز کہیں باہر سے تو خریدنا نہیں پڑتی جو یہ ارجنٹ شئے  مہنگائی کی وجہ سے ہماری قوتِ خرید سے باہر ہو‘یہ تو آدمی کے اندر ہوتی ہے جو اس نے بازار سے نہیں حاصل کی ہوتی اس نے تو اپنے ماں باپ سے اور گھر کے ماحول سے یہ اخلاقیات سیکھ رکھی ہوتی ہیں شاید آگے چل کر ہمیں موبائل سے الرجی ہوجائے پھر ایسے کہ ہم موبائل کے استعمال کرنے کا درست طریقہ خود ہی سیکھ لیں ہم موبائل سے بور ہو جائیں اور غلط طرزِ عمل کی موبائل شیئرنگ کو خود چھوڑ دیں اصل میں ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ ٹائم گذر جائے تو وہی دلچسپ چیز جو ماضی میں پر کشش تھی بورنگ ہو جاتی ہے یہ موبائل اپنی قدر دیر سے نہیں بلکہ جلد کھودینے والا ہے‘ہماری قوم ایک بچہ کی مثال ہے جس کو موبائل کا یہ کھلونا غیر اقوام نے دیا ہے کہ تم اس سے کھیلو اورہم تمہارے مستقبل سے کھیلیں گے۔