گھٹتے ہوئے آبی ذخائر

 اقوام متحدہ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ کیا یہ ادارہ کامیاب ثابت ہوا ہے یا نہیں،مشکل کام ہے‘ ویسے اکثر سیاسی مبصرین کامیابی یا ناکامی کے لحاظ سے اسے ففٹی ففٹی قرار دیتے ہیں بلا شبہ اس نے کئی ممالک کی اس وقت دل کھول کر مدد کی اور ان کے عوام کو موت کے منہ میں جانے سے بچایاجب وہ قدرتی آ فات یا وباؤں کا شکار ہوئے اور دنیا بھر میں جہاں جہاں مختلف وجوہات پر لوگوں نے نقل مکانی کی تو ان کو  دوبارہ بسانے اور رہائش دلانے میں بھی اقوام متحدہ نے قابل رشک کام کیا ہے۔ اسی طرح کئی ممالک میں امن قائم رکھنے کے لئے اس نے اپنے امن دستیبھجوائے۔بحیثیت مجموعی اس کی کارکردگی اگر بہت اچھی نہیں رہی تو بہت خراب بھی نہیں رہی‘اس کے کرتا دھرتوں کو لیگ آف نیشنز کا انجام یاد تھا لہٰذا انہوں نے حتی الوسع ان غلطیوں سے احترازکیا کہ جو لیگ آ ف نیشنز کی ناکامی کا باعث بنی تھیں پر چونکہ اس کے سیکریٹری جنرل کی تعیناتی میں سپر پاورز کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور اس  کے تحت رفاع عامہ کے جو ادارے کام کرتے ہیں ان کی فنڈنگ بھی کافی حد تک سپر پاورز ہی کرتی ہیں اسلئے سپر پاورز اسکے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ اب ذرا ذکر کرتے ہیں ملک بھر میں سیلابی بارشوں کی  وجہ سے ہونے والے نقصانات کا۔ ہر سال جب بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو اس سے یا سیلاب کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یا پھر یہ سارا پانی سیدھا سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے  چلو آ ج دریائے راوی  کے حوالے سے ہی اس بات کو آ گے بڑھا لیتے ہیں اگر  اس میں ہر دس کلومیٹر پر دیواریں بنا کر  پانی کو ذخیرہ کر لیا جائے اور ڈیسلٹنگ کے لئے ان دیواروں کے نیچے بند کرنے اور کھولنے کے لئے گیٹ بنا دئیے جائیں تو اس سے نہ صرف دریاے راوی کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ اس  کے کنارے  بنائے جانے والے تعمیراتی منصوبوں کو بھی بے اس سے کافی  فائدہ ہو سکتا ہے‘  اس دریا کی لمبائی720 کلو میٹر ہے اور یہ بھارت میں ہماچل پردیش سے شروع کر 80 کلومٹر کا سفر طے کرنے کے بعد پاکستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور پھر جھنگ کے مقام مندونہ پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا  ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے پانی کو دریاؤں میں ذخیرہ کرنے کے علاوہ اسے دریاؤں کیساتھ ساتھ مصنوعی جھیلیں  بنا کر بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جو کہ کم خرچ اور جلد فائدہ پہنچانے کا باعث بنے گا اور اس  پانی کو زراعت اور دیگر مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکے گا یاد رہے کہ پاکستان کے آبی ذخائر ر 140ملین ایکڑ فیٹ سے کم ہوکر 65 ملین ایکڑ فٹ رہ گئے ہیں اور یہ تشویشناک بات ہے ماہرین کے خیال میں سندھ طاس منصوبے پر اگر ایوب خان کے بعد آ نے والے اس ملک کے حکمران سنجیدگی سے اس منصوبے کے مندرجات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈیم بناتے رہتے تو آج ہم آبی ذخائر کے حوالے سے کئی مسائل کا شکار نہ ہوتے۔اب تذکرہ افغانستان کاکرتے ہیں جہاں دس لاکھ سے زائد بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں اور نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے‘ اس صورتحال کی جزوی ذمہ دار اس ملک پر لگنے والی پابندیاں بھی ہیں۔دس لاکھ سے زائد کم سن بچے ہندو کش کی ریاست افغانستان میں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس ملک کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ طالبان کے خلاف پابندیوں نے افغانستان کو ایک انسانی المیے سے دوچار کر دیا ہے۔ صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ گزشتہ برس کے ڈبلیو ایف پی 'ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیویڈ بیسلی نے افغانستان کو زمین پر مشکل ترین جگہ قرار دیا ہے‘یہ حقیقت اپنی جگہ کہ 2021 اگست میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد شاید ہی کوئی بمباری، فائرنگ، یا لڑائی ہوئی ہو لیکن ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک' انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ دو دہائیوں میں بموں اور گولیوں سے جتنے افغان باشندے ہلاک ہوئے اس سے کہیں زیادہ کے اب ملک میں پائی جانے والی  بھوک اور بدحالی سے ہلاک ہو نے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔گزشتہ موسم سرما کے بعد سے کچھ بھی بہتر نہیں ہوا ہے۔طالبان امن مذاکرات میں امریکیوں کے حقیقی شراکت دار تھے، جو بہت تیزی سے انخلا سے متعلق مذاکرات کی شکل اختیار کر گئے لیکن انہوں نے جو حکومت بنائی  وہ بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ تھی اور اسے الگ تھلگ کر دیا گیا۔نتیجتاً کابل کی طرف پیسے کے بہا رک گیا۔افغانستان اور عالمیا برداری کے در میان جس قدر جلد تعلقات استوارہوں اس قدر ہی یہاں کے عوام کی مشکلات میں کمی ہوگی۔اس وقت افغانستان کو کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے ایک تو انفرادی طور پر مختلف شخصیات پر پابندی عائد کی جس میں حکومت کے اراکین شامل ہیں۔اس وقت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانیوالی امداد کے سوا تمام اقتصادی امکانات منقطع ہو گئے، ملک کے تمام تر ترقیاتی منصوبے معطل ہیں یعنی افغانستان کو اقتصادی اور مالیاتی منڈیوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان باشندوں کو دوبارہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار معاشی صورتحال کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے‘امریکی انتظامیہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے تقریباً سات بلین یورو کے بیلنس کو منجمد کرنے اور گیارہ ستمبر 2001  کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کیلئے ممکنہ معاوضے کیلئے اسکی نصف رقم مختص کرنے کے فیصلے نے بھی افغانستان کی معاشی بد حالی میں اضافہ کر دیا‘اس بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ‘ایلینا ڈوہان کہتی ہیں کہبین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے، مرکزی بینک کی رقم کا تعلق حکومت سے نہیں، بلکہ ملک سے ہوتا ہے‘ پابندیوں اور زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے افغانستان میں رقوم کی منتقلی تقریبا ًناممکن ہے اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی کے بغیر، مرکزی بینک صرف ایک محدود حد تک افغان معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔انٹر نیشنل کرائسس گروپ  کا موقف ہے کہ افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے یا اس کی تنہائی کو سب سے پہلے ختم کیا جانا چاہئے۔اس تھنک ٹینک سے منسلک افغانستان امور کے ماہر دوماہ قبل کابل کے دورے کے بعد لکھا کہ اس ملک کو اس سے بھی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے اس کی تنہائی کو ختم کیا جانا چاہئے، ترقیاتی امداد کی حوصلہ افزائی کی  جائے اور مغربی اور علاقائی حکومتوں کو اس بات کا قائل کیا  جائے کہ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔