پشاور کو وسطی ایشیا سے لیکر جنو بی ایشیا تک چلنے والے قافلوں کے لو گ با غوں کا شہر کہتے تھے کیونکہ شہر کے اطراف میں بے شمار باغا ت تھے پھلوں اور پھو لوں سے لدے ہوئے با غا ت شہر کی سیر کرنے والوں کو مسحور کر دیتے تھے یہ زیادہ دور کی بات نہیں 1850ء تک پشاور کے باغات سب سلا مت اور قائم تھے 1860ء کے بعد انگریزوں کا دور آیا تو انہوں نے اپنا پہلا کیمپ علی مرد ان باغ میں لگا یا دوسرا کیمپ ڈبگری باغ میں لگا یا۔ گویا وسطی ایشیا کے ترک تا جروں کی طرح جنو بی ایشیاء آنے والے گورے فو جیوں کو بھی پشاور میں ہر طرف باغ دکھا ئی دیئے تو اردو محاورے کی رو سے ان کا دل باغ باغ ہوا۔ دنیا میں ہر شہر اور گاؤں نے تر قی کی ہے۔تر قی کا مطلب یہ ہے کہ 200سال پہلے اگر 10باغ تھے تو 200سال گزر نے کے بعد ان باغوں کی تعداد 20ہو نی چاہئے۔ لیکن پشاور کے نصیب میں باغوں، درختوں، پھو لوں اور پھلوں کی جگہ سیمنٹ، سریا اور پلا سٹک لکھا تھا۔پشاور کو پلاسٹک کی بے پنا ہ دولت ملی، سیمنٹ، سریا اور لوہا ملا‘درختوں کی جگہ پلا زوں نے لے لی اور باغوں کی جگہ بس اڈوں نے لے لی۔ڈاکٹر عادل ظریف اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ پشاور کا قدیم ورثہ ختم ہو چکا ہے اور بچے کچھے آثار تیزی کے ساتھ مٹا ئے جا رہے ہیں۔ اخبار بین حلقوں کو یا د ہو گا 2005ء میں پشاور شہر میں سیٹھی ہاوس ایک سر ما یہ دار کو فروخت کر دیا گیا سر ما یہ دار نے اُس کو مسمار کر کے پلا زہ تعمیر کرنے کا نقشہ تیار کیا، شہریوں کی تنظیمیں حر کت میں آگئیں، صو بائی حکومت نے سر ما یہ دار کو منہ ما نگی قیمت کروڑوں میں ادا کر کے سیٹھی ہاوس کو عجا ئب گھر بنا یا اور سیا حوں کے لئے کھول دیا اگر شہر یوں کی تنظیمیں حر کت میں نہ آتیں تو آج سیٹھی ہاوس کی جگہ 20منزلہ پلا زا نظر آتا۔زما نے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے، آج عام شہر یوں کو پشاور میں بمشکل پا نج باغوں کے نا م آتے ہیں ان میں سے دو باغ دکھا ئی دیتے ہیں۔ قلعہ با لا حصار کے سامنے سے گذر تے ہوئے اگر آپ کسی سیا ح کو بتائیں گے یہ یہاں نذر باغ ہو ا کر تا تھا تو وہ حیرت میں ڈوب جا ئے گا سڑک کے ایک طرف جنا ح پا رک کا محدود سارقبہ دکھا ئی دیگا، یہاں سے مڑ کر پرا نے شہر کے مشہور دروازہ ڈبگری گیٹ کا رخ کریں تو قدیم پشاور کا نقشہ ڈبگری دروازہ کے پا س بہت بڑے باغ کا پتہ دیتا ہے مگر آپ کے سامنے کنکریٹ کا بنا ہوا جنگل نظر آتا ہے ہر درخت کے بدلے سیمنٹ کی دیوہیکل دیوار ہے آپ کسی پشوری سے پو چھیں کہ باغوں کے شہر میں باغ کدھر ہے؟ وہ آپ کو لیکر شاہی باغ جا ئیگا یا وزیر باغ جا ئیگا، دونوں جگہوں پر آپ کو بتا ئیں گے کہ یہ باغ بہت بڑا تھا شہر میں تو سیع ہوئی تو باغ کا رقبہ سکڑ گیا اب پشاور کو باغوں کا نہیں صرف دو آدھے آدھے باغوں کا شہر کہا جا نا چاہئے اردو میں اس کے لئے ترقی معکوس کی ترکیب آتی ہے باغوں کا شہر اب پلازوں کا شہر بن گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی زمانے میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے مسائل کا جن شہروں کو سامنا نہیں تھا اب وہاں پر سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شہروں میں سبزے اور درختوں کا تناسب انتہائی حد تک کم ہونے لگا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی