ارشد ندیم، حقیقی ہیرو

 

بائیسویں کامن ویلتھ گیمز  میں پاکستانی دستے کی اچھی کارکردگی جاری ہے اور اس سلسلے میں ارشد ندیم نے جو کامیابی حاصل کی وہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے قریب واقع گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے۔ان کے والد راج مستری ہیں لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ہے اور آج انہوں نے وہ کارنامہ کر دکھایا جس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔ اگر ہمارے ہاں کرکٹ کے ساتھ دیگر کھیلوں اور خاص کر ایتھلیٹکس کو اہمیت دی جائے اور اس کو اسی طرح سرپرستی مل جائے جس طرح کرکٹ کو ملتی رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں نمایاں مقام حاصل نہ کرسکے۔ اب بات اگر ہوجائے ارشد ندیم کی جنہوں نے جیولین تھرو مقابلے میں نئی تاریخ رقم  کی ہے تو اس سے ایتھلیٹکس کے شعبے میں دلچسپی لینے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ پاکستانی  ہیروارشد ندیم کہتے ہیں کہ کہنی اور گھٹنے کی تکلیف اس قدر پریشان کر رہی تھی کہ ایک موقع پر ان کے لیے کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لینا مشکل نظر آ رہا تھا۔ارشد ندیم نے  گزشتہ روز برمنگھم میں جیولین تھرو مقابلے میں 90.18 میٹرز دور جیولین تھرو کر کے نہ صرف گولڈ میڈل جیتا ہے بلکہ انھوں نے کامن ویلتھ گیمز مقابلوں کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ارشد ندیم  کاکہنا ہے  کہ چوتھی تھرو کے بعد ان کی کہنی اور گھٹنے کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تھی اور جب ورلڈ چیمپئن گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز نے اپنی پانچویں تھرو 88 اعشاریہ 64 میٹرز کے فاصلے پر کی تو وہ اپنی تکلیف بھول گئے اور ان کے اندر ایک جذبہ پیدا ہو گیا۔کہنی اور گھٹنے کی تکلیف ارشد ندیم کے لئے اس لیے بھی پریشان کن تھی کہ ایک طرف بھاگنا اور دوسری طرف تھرو کرنا لیکن وہ ہار ماننے کے لئے اس لیے تیار نہیں تھے کہ انھیں سامنے گولڈ میڈل نظر آرہا تھا۔ انہیں اپنی کہنی کی تکلیف کا اندازہ تھا کہ چار پانچ تھرو کے بعد وہ بہت زیادہ پریشان کرے گی لہٰذا انہوں نے اس بات کو ذہن میں رکھ کر پہلی تین تھرو کو فوکس کر رکھا تھا کہ وہ بہت اچھی ہونی
 چاہئے۔ان کی پہلی ہی تھرو 86.81 میٹر کی ہو گئی جس کے بعد انھیں یقین ہو چکا تھا کہ آج گولڈ میڈل انہی کا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ساٹھ سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کا کوئی ایتھلیٹ کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا۔ ارشد ندیم کامن ویلتھ گیمز کے ٹریک اینڈ فیلڈ مقابلوں کی تاریخ میں طلائی تمغہ جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔ ان سے قبل 1954 میں محمد اقبال نے ہیمر تھرو میں اور 1962 میں غلام رازق نے 120گز کی ہرڈلز ریس میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ارشد ندیم دوسرے ایشیائی ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے 90 یا زائد میٹرز دور جیولین تھرو کی ہے۔ ان سے قبل 2017 میں چینی تائپے کے چا سون چینگ نے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ارشد ندیم کا کہنا ہے کہ کامن ویلتھ گیمز ان کی انجری کو دیکھتے ہوئے ٹوکیو اولمپکس سے زیادہ مشکل تھے۔انھوں نے کہنی کی تکلیف کے پیش نظر ورلڈ چیمپئن شپ، کامن ویلتھ گیمز اور اسلامک گیمز کو ٹارگٹ بنا رکھا تھا اور اس دوران انھوں نے قطر اور ترکی میں ہونے والی دو ڈائمنڈ لیگس کے علاوہ مزید دو تین ایونٹس میں حصہ نہیں لیا۔ارشد ندیم کہتے ہیں کہ پاکستانی دستے کیساتھ موجود ڈاکٹرز انھیں ان کی کہنی کی تکلیف کے بارے میں زیادہ نہیں بتا رہے کہ یہ کتنی خطرناک ہے۔اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ مقابلوں کے دوران انھیں پریشان کیا جائے تاہم اب کامن ویلتھ گیمز کے مقابلے ختم ہو چکے ہیں لہذا وہ ڈاکٹرز سے اس بارے میں بات کریں گے کہ یہ تکلیف کیا سرجری سے ہی دور ہوسکتی ہے یا اس کے بغیر بھی وہ ٹھیک
 ہوسکتے ہیں ارشد ندیم نے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جاری کامن ویلتھ گیمز میں جیولن تھرو ایونٹ میں نہ صرف طلائی تغمہ جیت لیا ہے بلکہ 90.18 میٹر کی تھرو کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز ریکارڈ بھی قائم کر لیا۔یہ گذشتہ 60 برسوں میں کامن ویلتھ گیمز کے ٹریک اینڈ فیلڈ مقابلوں میں پاکستان کا پہلا طلائی تمغہ ہے اور ارشد وہ دوسرے جنوبی ایشیائی ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے جیولن تھرو ایونٹ میں 90 میٹر سے زیادہ کی تھرو کی ہے انھوں نے ایونٹ میں اپنی پانچویں تھرو میں جیولن 90.18 میٹر دور پھینک کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ یہ تھرو اب نہ صرف ایک کامن ویلتھ گیمز ریکارڈ ہے بلکہ ارشد وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھوں نے 90 میٹر سے زیادہ کی جیولن تھرو کی ہے۔