کسی نے بالکل سولہ آ نے درست کہا ہے کہ اس دنیا میں اگر کوئی انسان کا صحیح معنوں میں دوست ہو سکتا ہے تو وہ کتاب ہے۔ آج دنیا میں جن ممالک نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں آپ کو ہر فرلانگ پر ایک لائبریری ملے گی جس میں ہر مضمون پر آپ کو کتابوں کا ایک انبار ملے گا صرف یہ ہی نہیں ان لائبریریوں میں بیٹھ کر پڑھنے لکھنے کی ہر قسم کی سہولت بھی آپ کومیسر ہوگی۔ لندن میں واقع ایک لائبریری میں تو وہ ٹیبل اور کرسی بھی موجود ہے جس پر کارل مارکس نے بیٹھ کر اپنی معرکتہ لارا کتاب DAS CAPITAL لکھی اس کتاب کا اوریجنل نسخہ بھی وہاں آپ موجود پائیں گے۔ کتابوں کے مطالعے سے ہی ریسرچ ہوتی ہے اور دنیا میں نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں۔
اب جبکہ لائبریریوں کا ذکر چھڑ چکا ہے تو کیوں نہ بعض کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کر دیا جائے کہ جو تاریخ معاشیات اور پولیٹیکل سائنس کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہئیں، چین کے صدر شی جن پنگ کی کتاب دی گورننس آ ف چائنا پڑھنے کے قا بل کتاب ہے۔ 630 صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں ہر اس مسئلہ کا ذکر موجود ہے جن سے ما ؤزے تنگ اور ان کے کامریڈ 1949 سے نبرد آ زما تھے کہ جب وہ لانگ مارچ کے بعد بیجنگ میں برسر اقتدار آ ئے تھے۔ انہوں نے 20 برس کے عرصے میں 20 کروڑ ان غریب چینیوں کو مفلوک الحالی کی زندگی سے باہر نکالا کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے والی زندگی گزار رہے تھے۔ کیا دنیا کے ان کئی ممالک کیلئے یہ کار نامہ مشعل راہ نہیں ہے کہ جن کی ایک بڑی تعداد آ ج بھی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔
روم کی تباہی کے اسباب پر ایڈورڈ گبن کی کتاب The decline and fall of Roman Empire سے بہتر کتاب کوئی نہیں لکھی گئی اس کے مصنف نے 22 برس لگا کر یہ کتاب لکھی اور اس کی اضافی خوبی یہ ہے کہ اس کے بارے میں چرچل نے کہا ہے کہ میں نے اسے پڑھ کر اچھی انگریزی لکھنا سیکھا ہے۔ تاریخ کی کتابوں کا ذکرہو اور ول ڈیورنٹ کا نام نہ لیا جاے تو زیادتی ہو گی ان کی مایہ ناز کتاب کا نام ہے، دی سٹوری آف سیولائزیشن۔ہماری دانست میں اگر تاریخ کے کسی طالب علم نے دنیا کے حالات کو جاننا ہے تو وہ ول ڈیورانٹ کو ضرور پڑھے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہ آخر وہ کہہ کیا رہا ہے اور اگر اس کے کہنے میں تمہارا فائدہ ہے تو اسے اپنانے میں آ خر حرج ہی کیا ہے۔