عمارتوں چوکوں اور گلی کوچوں کے نام بدلنے سے ہوتا تو کچھ بھی نہیں۔کسی کا ذاتی طور پر رتی برابر کچھ نہیں بگڑتا۔مگر اتنا ہوتا ہے کہ تاریخ کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔خواہ وہ ہسٹری سو سالہ پرانی ہو یا دوسو سالہ قدیم ہو۔یہ کام اچھا نہیں۔ہمارے ہاں اس طرح کی بہت کوششیں ہوئیں۔ کچھ تو کامیاب ہوئیں او ر اکثر ناکام ہوئیں۔ کامیاب اس لئے کہ اگر وہ چوک پہلے کسی کے نام سے منسوب نہیں تو وہاں یہ اقدام کرنا درست ہے۔پھر اس میں کوئی اعتراض بھی نہیں۔مگر وہ مقامات جو پہلے سو دو سو سال سے کسی اور کے نام پر جانے پہچانے جاتے ہیں اس گلی محلے کا عمارت کا نام بدل کو کسی اور کے نام پر رکھ دینے کی کوشش تہذیب کے منافی ہے۔کیونکہ اس مقام کو لوگ پرانے نام ہی سے پکارتے ہیں۔یہ تو جاکر کہیں سو سال گذریں تو پھرآنے والی نسلیں اسی عمارت کو اس کے نئے نام سے پکاریں گی۔ وگرنہ تو موجودہ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس جگہ کااصل نام تو کوئی اور ہے۔اسی لئے تو وہ پکارنا بھی چاہیں تو اس مقام کو اس کے نئے نام سے نہیں پکارسکتے۔کیونکہ وہ نیا نام ان کے ہونٹوں پہ چڑھتا ہی نہیں۔نام کی تختیاں کب قائم رہتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا افسر آتا ہے تو پہلے والے کا نام مٹا دیا جاتا ہے۔نئے باس کے نام کی تختی اس کے آفس کے باہر لگ جاتی ہے۔
نام ونمود اور نمائش کبھی پھلتے پھولتے نہیں۔اس کی بنیاد ہی میں مٹ جانا ہوتا ہے۔کیونکہ یہ ان ہواؤں پر لکھے گئے نام ہوتے ہیں جو بادلوں کی ذرا سی جنبش سے آسمان کی اس سلیٹ پر سے مٹ جاتے ہیں۔”مٹنا پڑے گا اگلے سوالات کے لئے۔ ہم لوگ ہیں سلیٹ کے اوپر لکھے ہوئے“۔پھر وہ شعر بھی یاد آنے لگا ہے ”لکھ کر ہمارا نام زمیں پر مٹا دیا۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا“۔ یہ سب بچوں کے کھیل ہیں۔غالب نے فرمایا ہے نا کہ ”بازیچہ ئ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“۔یہ تختی سکول میں پہلی یا دوسری جماعت کی بھی ہوتی ہے۔جس کو ظاہر ہے کہ بچے جا کر نلکے کے نیچے دھوتے ہیں تاکہ اگلا لکھا ہوا دُھل جائے تو اس پر استاد سے نیا سبق لیا جائے۔ کچھ تخیاں تو گھروں پر لگی ہوتی ہیں۔ وہ گھر بھی تو کسی کی تا حشر جاگیر نہیں رہتا۔ باپ دنیا سے گیا تو اگلی نسل بڑے بیٹے کے نام کی تختی لگا دیتی ہے۔دکھ تو بہت ہوتا ہے جب بڑوں کے ناموں کی تختی ہٹاتے ہیں۔مگر کیا کریں یہی دنیا کی رسم ہے اور یہی شیوہ ابنائے روزگا رکا ہے۔کبھی تو تختیوں سمیت عمارتیں فروخت جاتی ہیں او رکبھی عمارات ڈیہہ بھی جاتی ہیں۔
کسی نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو تو اس کے نام کی تختی شہر کے کسی چوک پر لگ جاتی ہے۔ وہ چو ک اس کے نام سے موسوم ہو جاتا ہے۔ وہ گلی وہ سڑک کسی نامور آدمی کسی شاعر ادیب دانشور کے نام پر مشہور ہونے لگتی ہے۔مگر کچھ عرصے بعد لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہ اب یہ جگہ اس نئے نام سے پکاری جائے گی۔احتجاج کرنے والے شور شرابا بھی کرتے ہیں مگر وہ کسی شاعر اور ادیب کے نام پر تھی تو نہ مرحوم کے لواحقین ا س پر کوئی صدا بلند کرتے ہیں اور نہ ہی یہ دانشور طبقہ اس پر برا مناتا ہے۔ کیونکہ ان کی بلاکو بھی اس کی پروا نہیں ہوتی۔اس لئے کہ یہ تختیاں ان کے نام کو مشہور نہیں کرتیں۔ ان کے اسماء تو پہلے سے مشہور و معروف ہوتے ہیں۔پھر ایسے لوگوں کو تختیوں کی ضرورت بھلا کب ہوتی ہے۔ان کے نام تو سکول کالج کی درسی کتابوں میں سو جگہ تحریر ہوتے ہیں۔پھر ایک چوک میں نہ سہی دوسرے چوک میں ان کے نام کا بورڈ آویزاں ہو جاتا ہے۔
اب پطرس بخاری تھے تو پشاور کے مگر ان کے نام پر ایک سڑک اسلام آباد میں ہے۔مگر ستم یہ ہے کہ کسی مشہور و معروف جگہ کا نام ختم کر کے اسی مقام کو اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کے نام سے جوڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایک اور کام بھی ہوتا ہے اور اس کا بازار خوب گرم ہے۔کوئی بڑی اور نامور شخصیت اتنا بڑا کام کر لیتی ہے کہ کسی گلی کوچے کی فرش بندی کر لیتی ہے۔وہاں مٹی اور ناہمواری والی زمین کو سیمنٹ سے پکا کروا لیتی ہے۔بلا شبہ قابلِ تعریف ہے۔پھر قبضہ گروپ سے بچانے کو کسی ویران مقام کے قبرستان کو چاردیواری سے ڈھانپ دیتے ہیں۔یہ بہت بڑھیا کام ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ کسی گلی میں نالیاں بنوا کر وہاں سرِ دیوار ان کے نام کی تختی لگ جاتی ہے کہ یہ نالیاں فلاں نے بنوائی ہیں۔یہ کام اکثر طور پر آنے والے الیکشن سے پہلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔شاید آپ نے ان دنوں دیکھے نہ ہوں مگر ایسا بھی ہوتا ہے۔