کیا ہاکی اور سکواش میں دوبارہ عروج ممکن ہے؟

باوجود کوشش بسیار پاکستان کی ہاکی اور سکوائش کے میدان میں نشاط ثانیہ نہیں ہو رہی حالانکہ 1950 کے بعد کئی دہائیوں تک ہاکی اور سکوائش میں دنیا میں ہمارا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان دونوں گیمز میں عالمی سطح پر ہونے والا ہر ٹورنامنٹ ہم ہی جیتتے تھے پھر نہ جانے ہمیں کس کی نظر لگی کہ ہم ان دونوں کھیلوں میں ایسے اوندھے منہ گرے کہ اٹھنے کی سکت ہم میں دکھائی نہیں دیتی اور آج  ہم ان دو گیمز میں نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں پشاور کے نواحی علاقے نواں کلی نے ہاشم خان، اعظم خان،روشن خان،محب اللہ خان، جہانگیر خان،جان شیر خان اور قمر زمان کی شکل میں ایسے زبردست سکواش کے کھلاڑی پیدا کئے کہ دنیا جن کے کھیل کودیکھ کر انگشت بدندان ہو جایا کرتی تھی کم و بیش یہی حال ہاکی کا بھی تھا اس میں 1948 سے لے کر 1990 کی دہائی تک  دنیائے ہاکی پر ہماری اجارہ داری رہی۔ اب ایک لمبے عرصے سے ان دونوں گیمز میں ہماراحال پتلا ہے اور وہ ممالک ہم سے آگے نکل گئے جن کو ہم نے ہاکی اور سکواش کے کھیل سکھائے۔ ملائشیا اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک نے بعد میں ہاکی شروع کی اور آج وہ ہم سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔کیونکہ انہوں نے ان تھک محنت اور منصوبہ بندی سے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔

جس پر کسی وقت ہم فائز تھے۔ جس زمانے میں ہاکی قدرتی گھاس پر کھیلی جاتی تھی اس زمانے میں دنیائے ہاکی پر ہمارا راج تھا کیونکہ ہمارے کھلاڑی  شروع  سے ہی قدرتی گھاس پر کھیلنے کے عادی ہوا کرتے تھے جس دن سے دوسری دنیا نے آ سٹرو ٹرف پر کھیلنا شروع کیا اس دن سے ہم ھاکی میں پیچھے رہنا شروع ہو گئے کیونکہ ہمارے بچوں کو آ سٹرو ٹرف پر کھیلنے کی عادت نہ تھی لہٰذا بیرون ملک جب وہ غیر ملکی ٹیموں سے کھیلنے جاتے تو وہاں ان سے مار کھاتے۔ ملک کے اندر حکومت صرف چند شہروں میں ہی آ سٹرو ٹرف بچھا سکی تھی اور آج جہاں تک آ سٹرو ٹرف کا تعلق ہے کم و بیش یہی حالت ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم تمام بڑے شہروں میں آسڑو ٹرف کی سہولت رکھنے والے سٹیڈیم بنائیں تاکہ ہمارے نوجوان کھلاڑی زیادہ سے زیادہ اس پر پریکٹس کرسکیں کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اگر سہولیات میسر ہوں تو وہ بہتر کارکردگی کامظاہرہ نہ کریں۔ حال ہی میں کامن ویلتھ گیمز میں ہمارے کھلاڑیوں نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ا سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں ہر کھیل میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے سہولیات اور مراعات کی کمی ہے۔

ہمارے کھلاڑیوں نے جس حالت میں تربیت حاصل کی ہے اور پھر ان مقابلوں کیلئے جس ماحول میں تیاری کی ہے وہ یقینا دیگر ممالک کے مقابلے میں کمتر ہے تاہم اس کے باوجود ہمارے کھلاڑیوں نے کئی میڈلز جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ ہمیں محض ایک کھیل یعنی کرکٹ پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے تمام کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ چاہے وہ باکسنگ ہو، ریسلنگ یا پھر ایتھلیٹکس‘ ان کھیلوں کو بھی اسی طرح کمرشلائز کرنا ہے جس طرح ہم نے کرکٹ کو کیا ہے۔ ان تمام کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو بھی وہی مراعات اور انعامات دینے کی پالیسی ضروری ہے جس طرح ہم نے کرکٹ کیلئے اپنائی ہوئی ہے۔ جس طرح ہم نے پی ایس ایل کے ذریعے کرکٹ کے معیار کو بلند سے بلند تر کیا ہے اسی طرح دیگر کھیلوں کے مقابلے میں اندرون ملک باقاعدگی کے ساتھ منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے ایونٹس میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی مدعو کرنا ضروری ہے تاکہ ہمارے کھلاڑی ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے بین الاقوامی معیارکو چھو سکیں اور کامن ویلتھ یا اولمپکس جیسے اہم مقابلوں میں پہلے سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں اب ایک اور اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاک افغان بارڈر پر تجارتی اشیاء کی آ مد ورفت پر غیر ضروری بندشیں لگانے سے ان دونوں ممالک کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں‘ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آمدو رفت اتنی بھی  بے قاعدہ نہ ہو کہ جس سے ہماری سلامتی متاثر ہو۔ ان دو ممالک کے درمیان ہر قسم کی آمد و رفت ایک ایسے جامع فول پروف نظام کے تحت ہونی چاہئے جس میں یہ احتمال نہ ہو کہ تجارت کی آڑ میں یا پاکستان میں علاج کرانے کے بہانے یا یہاں پر مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملنے جلنے کے بہانے افغان شہری وطن عزیز میں داخل ہوں اور پھر اپنے ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد وطن واپسی کے بجائے غائب ہو جائیں یا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر کے کسی اور ملک عازم سفر ہو جائیں۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں خاطر خواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاجارہا کہ جو اس کا تقاضاہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اس سلسلے میں ہوم لینڈ سکیورٹی کا جو نظام وضع کیا اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔