حسن ِسلوک

بدقسمتی سے پاکستان میں بالعموم جانوروں سے مثالی سلوک دیکھنے میں نہیں آتا اور جانوروں سے ’حسن ِسلوک‘ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اِس عمومی رجحان کی وجہ سے جانوروں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان کے چڑیا گھروں میں دنیا بھر سے جانور لائے جاتے ہیں اور پاکستان کے فیصلہ ساز اِن جانوروں کی دیکھ بھال اور خوراک کے وعدے کرتے ہیں لیکن چڑیا گھروں کا عمومی ماحول اِس قدر گھٹن سے بھرا ہوتا ہے کہ اِس کی وجہ سے چڑیا گھر کے باسی بیماریوں یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جانوروں سے متعلق عوام کا رویہ بھی اصلاح طلب ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے کتوں کو پتھر مارنا یا زمین پر پاؤں مار کر اُنہیں بلاضرورت ڈرانا ایک عمومی رویہ ہے جو المیہ بھی ہے کہ پاکستان میں صرف اُنہی جانوروں (pets) کو پسند کیا جو اپنے ہوتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر پالتو جانوروں کی خوراک و دیگر ضروریات کے الگ حصے (سیکشنز) ملتے ہیں جہاں خریدار غیر ملکی پالتو جانوروں کے لئے اشیا پر ہزاروں روپے خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیرملکی پالتو جانور رکھنا پاکستان میں سرمایہ دار ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور اِسے بڑے فخر سے بیان (پیش) کیا جاتا ہے لیکن یہاں جانوروں سے سلوک انفرادی دکھائی دیتا ہے جبکہ ضرورت اجتماع شعور کی ہے کہ جانوروں سے متعلق اجتماعی قومی رویئے میں تبدیلی آئے اور اِس کی ابتدأ چڑیا گھروں میں ہونے والے مظاہروں سے ہوگی۔

 خبر ہے کہ لاہور کے ”سفاری چڑیا گھر“ نامی ایک نجی سہولت میں شیروں‘ چیتوں اور اِس نسل کے دیگر جانوروں کو پنجروں کی بجائے وسیع کھلی چار دیواری میں رکھا گیا ہے جس کے کچھ حصوں تک سیاحوں کو رسائی دی جاتی ہے اور وہ اِن جانوروں کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ چڑیا گھر انتظامیہ نے ایک درجن شیروں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ چڑیا گھر میں جانوروں کی آبادی میں کمی لائی جا سکے۔ مذکورہ چڑیا گھر میں اس وقت اُنتیس شیر ہیں اور انتظامیہ ان میں سے بارہ فروخت کرنا چاہتی تھی‘ جن کی عمریں دو سے پانچ سال کے درمیان تھیں لیکن جب یہ خبر شائع ہوئی تو پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور جانوروں کی مذکورہ نیلامی (فروخت) منسوخ کرنا پڑی۔ افریقی جانوروں کے لئے پاکستان کی آب و ہوا موافق نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے اِن کی اکثریت مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتی ہے لیکن اِن جانوروں کی پاکستان درآمد پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔

 پالتو جانور رکھنے کے شوقین سرمایہ داروں کے لئے مختلف حیلوں بہانوں سے جانوروں کو درآمد کیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں مختلف وجوہات گھڑ کر فروخت کر دیا جاتا ہے یوں ایک غیرقانونی کاروبار کو قانونی شکل و صورت دی گئی ہے۔ پاکستان کے چڑیا گھروں کی ناگفتہ بہ صورتحال چند برس قبل اُس وقت سامنے آئی تھی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاون نامی ہاتھی کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے ’اسلام آباد‘ کے چڑیا گھر کو بند کر دیا تھا۔ مذکورہ ہاتھی برسوں تک تنہائی میں رہنے کی وجہ سے نفسیاتی اور جسمانی مسائل کا شکار ہو گیا تھا‘ جسے عدالتی مداخلت اور باقاعدہ مہم کے بعد بالآخر کمبوڈیا روانہ کر دیا تھا۔ پشاور کے چڑیا گھر میں بھی جانوروں کی ہلاکت اور اُن کی ضروریات کی کماحقہ ادائیگی نہ ہونے سے متعلق مصدقہ ذرائع سے خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کے چڑیا گھروں میں قید مصیبت زدہ جانوروں کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال سے متعلق عوامی شعور و آگہی میں اضافے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داروں کو غیرملکی جانور خریدنے اور انہیں غیرموافق ماحول میں رکھنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔