ہمارے گلی کوچوں کا ذکر ہی کیا کرنا وہ تو گندے مگندے ہیں ہی۔مگر ہمارے تو دریا بھی گندگی سے آلودہ ہوچکے ہیں اور ساتھ ہمارے پہاڑ بھی گند گریل سے اٹے ہوئے ہیں۔جوس کے خالی ڈبے خالی بوتلیں ادھ کھائے برگر چپس کے خالی رنگین کاغذ وہ کیا ہے جو ہم نے پہاڑ کے اوپر جاکر گراتے نہیں اور اوپر سے نیچے کھائیوں میں پھینکیں نہیں۔جہاں تو صفائی کرنے کے لئے بھی ہیلی کاپٹر کرایے پر لینے پڑیں گے۔کیونکہ اوپر سے نیچے کوئی بشر اُتر نہیں سکتا۔ نیچے جنگلوں میں شیر چیتے اور بندر پھر جانے کیا حشر سامانیاں ہیں۔نیچے جنگلوں کی اپنی ویرانیاں ہیں۔گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہل کار تو جرمانے بھی کرتے ہیں۔مگر وہ کس کس جگہ جائیں گے۔اتنا عملہ تو ان کے پاس نہیں کہ فرلانگ بھر فاصلے پرایک چوبدار بھی کھڑا ہو۔ ایسے میں ہزاروں لاکھوں نگہبان درکار ہیں جو ہر سیاحتی مقام کی رکھوالی کریں۔ کاغان ناران ملم جبہ چترال سوات نتھیا گلی اور درجن بھر دوسری گلیوں میں گھوم کر ان سبز پوش کونوں کھدروں کی حفاظت کا کام سرانجام دیں۔خود ہمیں اگر اپنی ہی جگہوں کی حفاظت کرنے کا خیال آجائے تو یہ غنیمت ہے۔پھر کوئی گند گریل نظر نہیں آئے گا۔ مگر اس کامطلب تو یہ ہوا کہ ہم خود گنداڈالتے ہیں اور گند ڈالنا پسند کرتے ہیں۔تاکہ ہم گند ڈالیں اور ہمارا گند دوسرے صاف کریں۔
اپنے گھر کو تو آئینہ بنارکھا ہوگا مگر اپنے مکان سے باہر کے ماحول کو جی بھر کے گندا کرتے ہیں۔اب صرف پانچ دنوں میں دو لاکھ سیر بین کے پی صوبے کے دور دراز علاقوں میں ٹھنڈک حاصل کرنے اور آنکھوں کو تراوت دینے کو پہنچے۔ صرف نتھیا گلی کے آس پاس کی مزید گلیوں میں ان پانچوں دنوں میں ایک لاکھ شہری ان مقامات کی خوبصورتی کو انجوائے کرنے مگر انجوائے کالفظ غلطی سے تحریر ہوگیا برباد کرنے کو پہنچے۔ ان کو پہلے کس نے روکا ہے جو اب ان کو کوئی روک پائے گا۔ مگر جب ان کے اندر والا ان کو گند ڈالنے سے منع کرے تومزاتب آئے۔ حتیٰ کہ ہماری کے ٹوکی چوٹی اور دوسری نامور پہاڑی سلسلے ہیں جن کو سر کیا گیا ہے۔وہاں بھی نیچے کھانے پینے کے سازو سامان کا بچا کچھا کچرا پڑا ہوا ہے۔ اب وہاں کے جنگلی جانور یا خونخوار چوپائے فاسٹ فوڈ کے رنگین کاغذ تو نہیں کھاتے۔سیر و سیاحت بری بات نہیں مگر دوسروں کا بھی تو خیال کریں۔پھر ہمارے ہاں ایک اور بیماری نے جنم لیا ہے اور ایسا کہ بندہ عاجز آجاتا ہے کہ اتنے سمجھ دار لوگ کاغان کی سرزمین پر جا کر وہاں کی تصاویر فیس بک پر شیئر کرتے ہیں۔
یہ برا نہیں۔ جیسے کسی گھر میں شادی ہو اور ڈھولک ٹھنک رہی ہو۔وہ بھی تو برا نہیں۔مگر یہ شعر بھی تو کسی سوچ کے تحت کہاگیا ہے کہ ”اتنانہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو۔ رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں“۔جب آپ فیس بک پر چائے کا زرد کپ ہاتھ میں تھام کر فوٹو کھنچوا کر فیس بک کے ذریعے اپنے دوستوں کو بھیجتے ہیں تو اس میں بھی یک گونہ احتیاط لازمی ہے۔وہ لوگ جو اپنے اپنے گھروں میں نارسائی کی وجہ گرمی کے موسم کی میدانی آبادی میں جل رہے ہیں ان کو تو اس چائے کے کپ کی گرمی کا تصور او رجلا ڈالتا ہوگا۔میں شاہ عالم کے پل سے پر گذرا تو دریا کو دیکھا۔ہمارے ساحل بھی آلودہ ہیں۔ان دنوں ہمارے اپنے پانچ دریا خوب جوبن پہ ہیں۔ اس دریاکے کنارے گرائے گئے گند تیر کر دریا کے پانی کے ساتھ آگے آ رہے تھے۔ بس کافی ہے کہ جہاں کی آبادی کے ساتھ کہیں نہر بہہ رہی ہویا کوئی ایک آدھ دریا ہو تو ان کو پھر کسی کوڑے کے ڈھیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس دریا میں لوگوں نے پھینکا ہو مگر یہ ایک غیر اخلاقی اور جہالت پر مبنی کام تھا۔ نئے فریج کی پیکنگ میں سے کاٹن کے سفید کاک دریا میں تیرتے تھے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ گند بھی تو نہیں تھا۔یہ تو کاٹھ کباڑ کہہ لو اس کو گھر میں دو سال بھی رکھو تو خراب نہیں ہوتا۔اس کو تو کہیں بھی ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔مگر اب سوچ سمجھ کہاں سے آئے۔جہاں کے دریا تک گندے ہوں اور پہاڑوں پر بھی کچرا ہو جہاں کے میدانوں میں گند کے الگ پہاڑ ہوں تو وہاں ہم نے کیا خاک ترقی کرنا ہے۔کالج یونیورسٹیوں میں کتاب کی تعلیم کے ساتھ ٹیمیں بنانا چاہئیں جو مختلف اطراف میں پھیل جائیں اور لازمی ہوم ورک کے طور پر بڑے بڑے شاپروں میں کچرا اکٹھا کریں۔کراچی کے ساحل پر تو یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کبھی کبھی یہ کام کرتے ہیں۔مگر یہ رسم اگرملک بھر میں پھیلا دی جائے تو کتنا اچھا ہو۔