سوشل میڈیا

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک طوفان ہے کہ جس نے عوام کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔سوشل میڈیا اپنی جگہ، ٹی وی چینلز اس کے علاوہ ہمہ وقت خبروں اور تبصروں میں مصروف رہتے ہیں، تاہم اس تمام کھیل میں عام آدمی کے مسائل کو شاید ہی کوئی اہمیت دی جاتی ہے، کبھی کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے سیاست کے سوا دنیا میں کوئی اور کام نہیں ہورہا۔ کئی ایسے معاشرتی مسائل ہیں کہ جن کو دستاویزی یعنی ڈاکیومنٹری فلموں کے ذریعے اُجاگر کر کے قوم کی رہنمائی کی جا سکتی ہے پر مجال ہے کہ کسی کا ان کی طرف دھیان جاتا ہو۔ کلاسیکی موسیقی سے بھی ہمارے ٹیلی ویژن چینلز سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہے ہیں ان کو یا تو بالکل وقت نہیں دیا جا رہا اور اگر دیا جا بھی رہا ہے تو بہت کم۔ ایک اور اہم مسئلہ ملک میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ہیں۔ کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ وطن عزیز میں ہر سال مختلف قسم کے ٹریفک کے حادثات میں جتنے لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں ان کی تعداد کسی طور بھی کینسر اور امراض قلب سے موت کا شکار ہو جانے والوں سے کم نہیں ہے۔ ہماری سڑکوں پر جو موٹر گاڑیاں بسیں ویگنیں اور ٹرک آپ کو دوڑتے نظر آ تے ہیں ان میں نوے فیصد مکینکل اور ٹیکنیکل لحاظ سے اس قابل ہی نہیں کہ ان کو سڑکوں پر لایا جائے۔ 

ان کی فزیکل فٹنس کی چیکنگ کا کوئی معقول اور تسلی بخش نظام ہے ہی نہیں۔تب ہی تو کئی حادثات ٹائی راڈ کے ٹوٹ جانے یا ٹائر پھٹ جانے سے رونما ہوتے ہیں جس کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جاتا ہے اسے یہ ذھن نشین نہیں کرایا جاتا کہ خالی خولی سٹیر نگ پر بیٹھنے سے کوئی فرد اچھا ڈرائیور نہیں بن جاتا۔اسے ٹریفک قوانین ازبر کرانا ضروری ہوتے ہیں۔ 18 برس کی عمر سے نیچے کسی بھی فرد کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنا سخت جرم ہے اور اگر 18 برس سے کم کوئی فرد گاڑی چلاتا نظر آ تا ہے تو ایسا قانون ہونا چاہئے کہ اسکے والد یا کفیل کو بھی جیل کی ہوا کھلائی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اوور سپیڈنگ کے مرتکب افراد کو جب تک سخت سزا نہ دی جائے گی تو ڈرائیور حضرات اوور سپیڈنگ کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ ہماری دانست میں جب تک ہم اس قسم کا ٹریفک نظام وطن عزیز میں من و عن نافذ نہیں کریں گے کہ جو ترقی یافتہ یورپین ممالک میں لاگو ہے تو ہماری سڑکوں پر روزانہ ٹریفک حادثات میں لوگ لقمہ اجل بنتے رہیں گے۔

 اس ضمن میں اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو یہ ہمارے پارلیمانی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے موثر قانون سازی کریں کیونکہ اس مسئلے کا تعلق انسانی جانوں سے ہے۔اب ذرا تذکرہ ہو جائے عالمی منظر نامے کا جہاں یوکرین جنگ میں روس اپنے مقاصد کو حاصل کرنے تک جنگ کا تہیہ کئے ہوئے ہے اور دوسری طرف امریکہ اور نیٹو نے بھی مل کر طویل دورانئے کی جنگ کی تیاری کر لی ہے۔ روس نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ اگر یورپ اور امریکہ نے یوکرین کے ساتھ فوجی تعاون جاری رکھا تو اسے روس اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھے گا۔ دوسری طرف ماسکو کے ماہرین نے یوکرین میں ان علاقوں کا دورہ کیا ہے جہاں پر روس نے قبضہ کیا ہے اور لگتا ہے یہ ہے کہ ان علاقوں کو کریمیا کی طرح روس کے ساتھ ضم کرکے ان پر اپنی عملداری قائم کی جائے گی۔