یہ خبر تشویشناک ہے کہ 74 ضروری اور جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہیں اور مقامی کمپنیوں نے ان کی درآمد روک دی ہے اور یہ کہ ادویات کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ٹیکسوں میں چھوٹ نہ دی گئی اور قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو ان ادویات کی تیاری نا ممکن ہو جائے گی۔ اس سے پیشتر کہ یہ بحران شدت اختیار کر جاے متعلقہ سرکاری حکام کویہ معاملہ سنجیدگی سے لینا ہو گا۔نہایت ضروری ہے کہ اسے جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے کیونکہ اس کا انسانی جانوں سے براہ راست تعلق ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کرتے ہیں عالمی سطح پرہونے والے بعض اہم واقعات کا۔ انجام کار ملعون سلمان رشدی پر امریکہ میں حملہ ہوا اور تا دم تحریرہسپتال میں اس کی حالت غیر تھی وہ ایک عرصے سے چھپ چھپ کر مختلف ممالک میں روپوش زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی گستاخانہ کتابوں پر پاکستان میں پابندی ہے اور ایران میں اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ بھی دیا گیا ہے۔
امریکی جنرل میکینزی ایک عرصے تک افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے۔انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے عسکری حکام نے امریکہ کے صدر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی سالم فوج نہ نکالیں بلکہ تین ہزار کے قریب فوجی وہاں رہنے دیں ورنہ تمام امریکی افواج کے انخلا کے بعدہو سکتا ہے۔ یہ ملک ایک مرتبہ پھر انتشار کا شکار ہو جائے، پر ان کے مشورے پر امریکہ کے صدر نے کان نہ دھرا۔پولیٹکل سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس اور پینٹاگون یعنی کہ امریکی صدور اور امریکی عسکری قیادت کے درمیان ماضی میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی کئی مرتبہ بیرون ملک امریکہ کی افواج کے استعمال کے طریقہ کار میں اختلاف رہا ہے جو جنرل میک آرتھر کے زمانے سے لے کر آج تک وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہا ہے۔افغانستان کا جغرافیائی محل و قوع دنیا میں منفرد قسم کا ہے جو اپنی مثال آ پ ہے۔ اس ملک میں وہ گریٹ گیم جو کبھی زار روس اور فرنگیوں نے اس پر دسترس حاصل کرنے کیلئے چھیڑی تھی وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کھیلی جا رہی ہے گو کہ اس کے کرداروں کی شکلیں آج مختلف ہیں۔
اب تذکرہ ہو جائے ایک اور اہم معاملے کا جہاں یوکرینی گندم کی برآمد بحال ہوگئی ہے اور حال ہی میں مزید دو بحری جہازوں کی روانگی ہوئی ہے۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یوکرین سے اب تک 14 بحری جہاز روانہ ہو چکے ہیں۔ روس کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے تحت یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے اناج کی برآمدات کی بحالی ممکن ہوئی۔ روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرینی زرعی اجناس کی برآمدات کا سلسلہ پانچ ماہ تک تعطل کا شکار رہا۔ترکی کے ساتھ اقوام متحدہ کی ثالثی میں یہ معاہدہ گزشتہ ماہ طے پایا تھا۔ یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب اناج کی سپلائی بند ہو جانے سے خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی، یہاں تک کہ دنیا کے کچھ خطوں میں تو بھوک اور قحط کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ جمعے کو یوکرین کی کورنومورسک نامی بندرگاہ سے بیلیز کے پرچم والا بحری جہاز سورمووسکی ترکی کے شمال مغربی صوبے تکیرداگ کی طرف روانہ ہوا۔
اس پر تین ہزار پچاس ٹن گندم لدی ہوئی ہے۔ 24 فروری سے پہلے یوکرین اور روس مل کر دنیا بھر کو گندم کی برآمدات کا قریب ایک تہائی حصہ فراہم کرتے تھے۔ یوکرین کے پاس گزشتہ سال کی فصل سے اب تک تقریبا 20 ملین ٹن اناج بچا ہوا ہے جبکہ اس سال بھی گندم کی کٹائی سے اتنی ہی گندم یعنی قریب 20 ملین ٹن پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد سے عالمی سطح پر اناج کی کمی کے خطرات پیدا ہو گئے تھے اور چند ممالک اس قلت کا سب سے زیادہ شکار ہوئے۔ گزشتہ روز یوکرین نے کہا تھا کہ وہ جہاز اس کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے والا ہے، جو اناج لے کر ایتھوپیا کے لیے روانہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ذریعے طے شدہ معاہدے کے تحت تمام بحری جہازوں کا پہلے استنبول میں معائنہ کیا جاتا ہے۔ استنبول میں اقوام متحدہ، ترکی، روس اور یوکرین کے اہلکاروں پر مشتمل ایک رابطہ مرکز قائم ہے، جو تمام کارگو بحری جہازوں کا حتمی روانگی سے پہلے معائنہ کرتا ہے۔
ایک کنٹینر شپ جو یوکرین سے استنبول کے لیے گزشتہ روز روانہ ہوا تھا، وہ آبنائے باسفورس کے شمالی سرے پر لنگر انداز ہو گیا جبکہ دوسرا کارگو شپ جو گزشتہ اتوار کو اٹلی کے لیے روانہ ہوا تھا، وہ جنوبی سرے پر لنگر انداز ہوا ہے۔ان کے علاوہ استنبول کی جی سی سی ٹیم کی طرف سے معائنے کے بعد چار دیگر بحری جہازوں کو بھی یوکرین کے سفر کی اجازت مل گئی۔ ترک وزارت دفاع نے جمعرات کے روز بتایا کہ جو شپ یوکرین پہنچے تھے، وہ تب لوڈ کیے جا رہے تھے۔ تاہم یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ یہ شپ وہاں سے کب روانہ ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یوکرینی اجناس کی برآمد پر اتفاق کے بعد اناج کی برآمدات کے لئے زیر استعمال بحری جہازوں کی تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔اس طرح دنیا پر قحط اور غذائی قلت کے جو خطرات منڈلا رہے تھے وہ وقتی طور پر ٹل گئے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے اور روس یوکرین جنگ کیا صورت اختیار کرتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔