رواں برس ’مون سون‘ بارشوں کا سلسلہ ماہئ جون کے وسط میں شروع ہوا۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے قومی ادارے ”نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)“ نے موسم سے متعلق پیشگوئی کے مطابق تیاری کرنا تھی جس میں کہا گیا تھا کہ رواں برس مون سون کی سالانہ اوسط سے 133فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ جن علاقوں میں معمول کے مطابق بارشیں سیلاب کا باعث بنتی ہوں وہاں اگر سوفیصد سے بھی زائد موسلادھار بارش ہو تو اِس سے سیلابی صورتحال جنم لیتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں رواں برس مون سون بارش تباہی کا باعث بنی۔ پورے کے پورے گاؤں زیرآب آئے۔ سڑکیں اور پلیں بہہ گئے جبکہ مقامی افراد کئی دنوں تک پھنسے رہے۔
رواں برس مون سون سے نسبتاً زیادہ متاثر بلوچستان ہوا ہے۔ جہاں سے اطلاعات کے مطابق اگرچہ سیلاب کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن بہت سے علاقوں سے پانی ابھی نہیں اُترا اور صوبے کے مختلف اضلاع میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی ہے! ہیضے کے درجنوں کیسز میں خاص طور پر بچے متاثر ہیں اور ہیضہ اِس وجہ سے پھیلتا ہے کیونکہ پینے کے لئے صاف پانی دستیاب نہیں ہوتا اور سیلاب متاثرین مجبوراً آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں جہاں حال ہی میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے تمام پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے ہیں اور اِس وجہ سے پھیلنے والے ہیضے کی وجہ سے بچوں کی اموات بھی ہو رہی ہیں۔
پانی کی قلت سے صرف بچے ہی نہیں بلکہ بالغ بھی متاثر ہیں جنہیں صاف پانی کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ پانی کے موجود ذرائع کسی نہ کسی صورت سیلاب سے متاثر ہیں۔ سیلابی علاقوں میں صحت کی علاج معالجے کی سہولیات‘ ادویات اور طبی عملے کی کمی ہے۔ علاؤہ ازیں اِن علاقوں میٹھے پانی کی فراہمی کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لئے حکومتی مشینری کو اُس وقت سے پہلے حرکت میں آنا چاہئے جب حالات ہاتھ سے نکل جائیں۔ سیلاب متاثرین کو فوری طبی امداد اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی یقینا آسان نہیں خصوصاً ایک ایسی صورتحال میں جبکہ وبائیں پھیل رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ چند علاقے افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ سرحد کی دوسری طرف ہیضے کے اٹھارہ ہزار سے زائد کیسیز اور بارہ اموات صورتحال کے تشویشناک ہونے کا بیان ہے۔ یہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال ہے اور افغانستان اور پاکستان دونوں میں تمام متعلقہ حکام کو سنجیدگی سے اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔ حیران کن طور پر وزارت قومی صحت نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے صرف بارہ ڈاکٹروں کی ٹیم بلوچستان کے ضلع لسبیلہ بھیجی ہے۔
متاثرین کو علاج معالجے کی فراہمی کے لئے اس طرح کی مزید درجنوں ٹیمیں درکار ہیں جو بلوچستان کے دیگر اضلاع میں میں طبی سہولیات کی ضرورت پوری کر سکے۔ بلوچستان حکومت کو تمام سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ بھی لگانے چاہئیں۔ صرف کھانا چھوڑ دینا کافی نہیں ہے۔ کم از کم اگلے دو مہینوں کے لئے مستند اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی تعیناتی بھی ضروری ہے تاکہ ہیضے کی طرح مزید وبائی بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا امکان ختم کیا جا سکے۔ بلوچستان کو مدد کی ضرورت ہے جس کی فراہمی دیگر صوبوں اور عوام کو فراخدلی سے حصہ لیتے ہوئے سیلاب زدگان کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لانا چاہئیں۔ پینے کا صاف پانی اور حفظان صحت کی کٹس متاثرین میں تقسیم فی الفور ضروری ہے جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور بحالی کے کام میں تیز رفتاری برقرار رہنی چاہئے۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کے ساتھ موبائل ہیلتھ ٹیمیں وہاں پہنچنے اور اپنے آپریشن شروع کرنے کے لئے تیار رہیں۔
طویل مدتی بنیادوں پر‘ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو ایسے علاقوں میں سال بھر فعال رکھنا ہوگا‘ جن میں روزانہ ہزاروں لیٹر صاف اور محفوظ پانی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔ پانی ذخیرہ رکھنے کے برتن (جیری کینز) اور ڈینگی بخار سے حفاظت کے لئے کٹس بھی امدادی سامان کا حصہ ہونی چاہئے۔ ماضی میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے غیرسرکاری تنظمیں ملک گیر عطیات جمع کرنے کے کیمپ لگایا کرتی تھیں جو اِس مرتبہ حکومت اور ذرائع ابلاغ کی عدم دلچسپی کے سبب دکھائی نہیں دے رہے۔ بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں جن کا ذرائع ابلاغ پر تماشا دیکھتے ہوئے معمول کی بے حسی کا مظاہرہ اِس ہنگامی صورتحال کا ”ہمدردانہ جواب“ نہیں ہے۔