ایک مرتبہ پھر ملک میں مردم شماری کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ ماہ رواں میں ساتویں مردم شماری نے شروع ہونا تھا اب وہ کہیں جا کر دسمبر میں شروع ہوگی۔ پہلی مردم شماری 1951میں دوسری 1961میں تیسری 1972میں چوتھی 1981میں پانچویں 1998میں اور چھٹی 2017میں ہوئی۔ اصولی طور پر مردم شماری کا ہر صورت میں دس سال بعد ہونا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ پیمانہ ہوتا ہے جس کو سامنے رکھ کر پلاننگ کمیشن ملک کیلئے ترقیاتی منصوبے وضع کرتا ہے۔ چلو اگر1971 میں یہ نہ ہو سکی تھی تو اس کی تو ایک معقول وجہ تھی اور وہ یہ تھی کہ اس برس پاک بھارت جنگ ہو رہی تھی پر باقی چھ مردم شماریوں کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ملتوی کیا جاتا رہا ہے جس میں غفلت اور کوتاہی جیسے عناصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب کی دفعہ بھی التوا کا یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ مردم شماری میں جو آ لات استعمال ہوتے ہیں ان کو خریدا نہیں جا سکاہے۔مردم شماری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وسائل اورآبادی کے درمیان تناسب کے حوالے سے منصوبہ بندی اور پھر انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے لائحہ عمل طے کرنا سب مردم شماری کے بغیر ممکن ہی نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے،اس کی چند مثالوں سے وضاحت ہو سکتی ہے۔
ہر روز اس ملک میں آ گ لگنے سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل ہو رہے ہیں اس کی جو بھی وجوہات ہیں وہ اپنی جگہ پرہم نے اپنے فائر بریگیڈ سسٹم کو ابھی تک آپ گریڈ نہیں کیا۔ہماری سڑکوں پر روزانہ مختلف قسم کے ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں پر اس طرف ارباب اقتدار کی خاطر خواہ توجہ نہیں، ہمارے تعمیراتی ادارے عمارتیں کھڑی کرتے وقت بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد نہیں کرتے جس کے بعد میں منفی اثرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں مختلف قسم کے حادثات اور جانی نقصانات کی صورت میں۔ان ابتدائی کلمات کے بعد اب آ تے ہیں دوسرے اہم قومی اور عالمی امور کی جانب۔ روس اور یوکرین کے درمیان قضیہ نہ جانے کتنی اور جانیں لینے کے بعد حل ہوگا۔ روس کو ایک لمبے عرصے کے بعد پیوٹن کی شکل میں ایک مضبوط رہنما ملا ہے۔برطانیہ کے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل ہوکن ہل کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال نومبر میں انھیں یقین ہو گیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے۔جنرل ہاکن ہل گذشتہ چار برسوں سے ڈیفنس انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر، ایک ایسی تنظیم چلا رہے ہیں جو انتہائی خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات سے نمٹتی ہے۔جنرل ہوکن ہل کا کہنا ہے کہ ماسکو کا فوری طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا امکان نہیں ہے۔
روسی فوجی نظریے یا ملٹری ڈاکٹرائن میں، مغرب کے برعکس، فوجی کاروائیوں کے لیے حکمت عملی یا میدان جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا آپشن موجود ہے۔لیکن ان کا یہ خیال ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار فوری طور پر استعمال کیے جائیں گے۔تاہم یہ وہ عنصر ہے جس پر وہ نظر رکھے ہوئے ہیں‘ اگر میدان جنگ میں متحرک تبدیلیاں آتی ہیں تو ان کے استعمال ہونے کا امکان تبدیل ہو سکتا ہے۔ڈیفنس انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر چار سال کے بعد، جنرل ہوکن ہل برطانیہ کی دفاعی سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ تعینات ہونے والے ہیں۔وہ اب بھی روس کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن وہ چین کے بارے میں بھی فکر مند ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ روس اور چین نے مل کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور اب وہ وقت نہیں رہا کہ جب امریکہ نے روس اور امریکہ کو آپس میں تقسیم کر رکھا تھا اور امریکہ جہاں چاہتا وہاں گھس جاتا۔
اب یوکرین میں جہاں روس نے امریکہ کے عزائم کو ناکام بنادیا ہے وہاں چین نے تائیوان کے معاملے میں سخت رد عمل دکھا کر ثابت کیا کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سپر پاور کے طور پر اپنی حیثیت کو منوا چکا ہے۔ جہاں تک روس اور یوکرین جنگ کا تعلق ہے تو وہاں پر روس نے اپنے مقاصد کو حاصل کرلیا ہے اس نے اس سٹریٹیجک علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جسے ڈونباس کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس نے یوکرین کی بحری اور زمینی ناکہ بندی بھی مکمل کر رکھی ہے۔اب یہ جو ترکی کی ثالثی سے یوکرین اور روس کے درمیان غلے کی ترسیل کا معاہدہ ہوا ہے اور جس پر تاحال عمل بھی ہورہا ہے تو اس میں بھی روس نے اپنی شرائط کو منوالیا ہے۔پیوٹن کی صورت میں روس کو جو رہنما ملا ہے اس نے ثابت کیا کہ وہ روس کی مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں مغرب اور امریکہ کا عرصہ دراز کے بعد ایک سخت گیر روسی لیڈر سے پالاپڑا ہے جو کسی بھی معاملے میں ملکی مفادات پر سودا کرنے کیلئے تیار نہیں۔اسی طرح کے حالات کا سامنا امریکہ کو چین میں بھی ہے وہاں بھی ایسی قیادت ہے کہ جو چین کو سپر پاور بنا کر اسے دنیا کیلئے ایک مثال بنا چکی ہے اور جس طرح چین نے اپنی ایک بڑی آبادی کو غربت سے نکا ل کر خوشحالی اور ترقی کی دنیا میں لے آیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہماری تو خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پڑوس میں ہی ہمارے لئے ایک بہترین مثال موجود ہے جس کی ترقی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اسی ماڈل پر ہم بھی اپنے وطن کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔تاہم اسکے لئے سخت محنت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہو اورخلوص نیت سے اس پر ہر دور میں عمل کیا جائے تو جن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے وہ ختم نہ ہوں۔